پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیوں کیا؟

‎اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کیے ہوئے تمام معاہدوں کو توڑا ہے، اس لیے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور اس کے کئی پہلو اہم ہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کے شہریوں کی رائے سے براہ راست جڑا ہے۔

کوئی بھی حکومت اتنا اہم فیصلہ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کر سکتی جس کی بڑی وجہ اسرائیل کے بارے میں عام لوگوں کے جذبات ہیں جو کئی دہائیوں سے اسے ایک ’غاصب‘ قوت سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کے لیے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر عوامی ریفرنڈم تک کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔

‎اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کیے ہوئے تمام معاہدوں کو توڑا ہے، اس لیے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیل نے تاریخی طور پر کبھی بین الاقوامی قوانین یا بین الاقوامی معاہدوں کا احترام نہیں کیا۔

‎اسرائیل فلسطین کے لیے دو یا ایک ریاستی حل میں سے کسی کے لیے بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرتا اور امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ہونے والے میثاق ابراہیم کے بعد مقبوضہ علاقوں سے دست بردار ہوجاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔‎

اسرائیل ناصرف فلسطینیوں کی کسی ریاست کے حق کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ فلسطینیوں کو فلسطینیوں اور اسرائیلی شہریوں پر مشتمل ایک مشترکہ ریاست کا شہری بننے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام میں فلسطینی اسرائیل میں اکثریتی ووٹ بینک ہوں گے جس سے اسرائیل کی نسلی شناخت متاثر ہو گی۔

اسرائیل کے نسل پرستانہ قومیتی قوانین کی بدولت اسرائیلی ہونے کے لیے یہودی ہونا لازمی ہے۔ یہ امر ایک مشترکہ ریاستی حل کے امکانات کو بھی ختم کر دیتا ہے اور اسرائیل کو دو ریاستی حل کی اجازت بھی نہیں دیتا، لہذا صرف ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے کہ تمام فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کر کے عرب ریاستوں میں پناہ گزین بنا کر بھیج دیا جائے۔

پاکستان کے لیے اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنا نیتن یاھو کی صیہونی اور دائیں بازو کی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔ یہ غزہ، مغربی کنارے اور شام میں نیتن یاہو کی قیادت میں صیہونی قوم پرستوں کے ہاتھوں مسلمان عربوں پر تشدد اور بے گناہ قتل کو نہ صرف جواز مہیا کرے گا بلکہ ان کی حوصلہ بھی افزائی کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل کو ابھی تسلیم کرنا بیرونی دباؤ اور مجبوری کے تحت کیا جائے گا۔ یہ پاکستان کے عوام کے جذبات کی عکاسی نہیں کرے گا بلکہ سیاسی اور معاشی دباؤ میں پاکستان پر مسلط کیا گیا ایک ایسا فیصلہ ہو گا جو ہماری قومی خود مختاری پر کئی سوالیہ نشان اٹھا دے گا۔

فلسطین کی زمینوں پر غیرقانونی قبضے کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اسی طرح وہ کشمیری اراضی پر بھارتی تسلط کو بھی نہیں مانتا ہے۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کر لینا کشمیر پر بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز دینے کے مترادف ہو گا اور یہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد سے غداری ہو گی۔

ابھی اسرائیل کو تسلیم کرنا نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر مسلم اقوام کی حمایت سے محروم کر دے گا، بلکہ اس سے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جو ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے۔ یہ قدم  پاکستان کے لیے سفارتی اور معاشی تنہائی کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے سی پیک منصوبے کو بھی نقصان پہنچے گا۔

پاکستان ایک کمزور ریاست کے طور پر دیکھا جائے گا جس کی اپنی کوئی خود مختار پالیسی نہیں۔ ایک ایسا ملک جس نے غیرملکی دباؤ میں آ کر اسرائیل کو قانونی حیثیت دی جس کا وہ حق دار نہیں۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان یو این ایچ آر سی کا رکن ہے اور اس تناظر میں ایک غاصب طاقت کو جائز قرار دینا ایک تاریخی غلطی ہو گی اور یہ امر پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

اسرائیل کے حامی بیانیہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے عقائد کے برعکس اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے عسکری طور پر بھی زیادہ سود مند ثابت نہ ہو گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اسرائیلی دفاعی منڈی میں بھارتی فوج کی قوت خرید سے مقابلہ نہیں کر سکے گا، جو پہلے ہی وہاں اپنے قدم بڑی مضبوطی سے جما چکی ہے۔

ان تمام عوامل کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا مؤقف اخلاقی، سیاسی اور معاشی حقائق پر مبنی ہے۔ اسے اس وقت تک نہیں بدلا جانا چاہیے جب تک کہ اسرائیل میں ایک اعتدال پسند حکومت قائم  نہ ہو جو فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کر کے اپنے پڑوسی ممالک اور فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل یا ایک مشترکہ جمہوری ریاست کے حل کے تحت مسئلہ فلسطین کا تصفیہ کر کے خطہ میں پائیدار امن قائم کرنے کی خواہش مند ہو۔

ترجمہ: مزمل رضا احمد

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ