پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سیاسی مبصرین آج لاہور میں ہونے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اس اجلاس کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ اسی بیٹھک میں تحریک انصاف حکومت کے مخالف اس اتحاد کے مستقبل کا فیصلہ ہونے کا بھی امکان ہے۔

پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین 22 نومبر 2020 کو پشاور میں ہونے والے ایک حکومت مخالف جلسے میں شریک ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مرکزی قیادت کا اجلاس آج (یکم جنوری) لاہور میں ہو رہا ہے جس میں پی ڈی ایم کی بڑی رکن جماعتوں کے درمیان اختلافات پر بحث اورمستقبل کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سیاسی مبصرین پی ڈی ایم کے اس اجلاس کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ اسی بیٹھک میں تحریک انصاف حکومت کے مخالف اس اتحاد کے مستقبل کا فیصلہ ہونے کا بھی امکان ہے۔

سینئیر صحافی شاکر سولنگی کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم اس وقت سخت تناؤ کا شکار ہے اور اس کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری رکن جماعتوں کے درمیان بعض امور پر اختلافات ہیں۔ ' پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے دوسرے اتحادیوں سے بالکل مختلف راہ اختیار کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور سب کو اپنے راستے پر چلانا چاہتی ہے۔'

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ ان اختلافات کے باعث پی ڈی ایم کا مستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔

شاکر سولنگی کی رائے کے برعکس پی ڈی ایم رہنماؤں کا اصرار ہے کہ اتحاد میں پائے جانے والے اختلافات کی نوعیت بہت سنجیدہ نہیں ہے بلکہ یہ محض آرا کا اختلاف ہے جو آج کے اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ کا کہنا تھا: 'آج کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اپنی رائے سب کے سامنے رکھے گی اور پھر اتفاق رائے سے مستقبل کے متعلق فیصلے کیے جائیں گے۔'

اختلافات ہیں کیا؟

پی ڈی ایم میں تنازع کی وجہ مستقبل قریب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہونے والی آٹھ نشستوں اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات اور اسمبلیوں سے استعفے دینا ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف یہ اتحاد گذشتہ سال 20 ستمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے نتیجے میں وجود میں آیا، جس کے میمورنڈم کے 26 نکات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینا بھی شامل تھا۔

پی ڈی ایم کی دس میں سے نو رکن جماعتیں استعفے کا آپشن استعمال کرنے کے حق میں ہیں جبکہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اس طریقہ احتجاج کی مخالفت کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی بعض نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا ہے، جن میں حصہ لینے سے متعلق پیپلز پارٹی کی حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں سے رائے مختلف ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ ن کی خواہش کے برعکس پیپلز پارٹی مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے سلسلے میں بھی مختلف راہ پر چل رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی دوسری تمام جماعتیں ضمنی اور سینیٹ انتخابات سے دور رہنے اور جلد از جلد اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں۔

پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ نے ان تمام امور پر اپنی 'مختلف' سوچ کا اظہار کیے بغیر گیند پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کی کورٹ میں ڈال دی تھی، جس کے گذشتہ منگل کے اجلاس میں ان اختلافی مسائل پر فیصلے ہو چکے ہیں، تاہم انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سی ای سی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ فیصلے جمعے کو ہونے والے اجلاس میں پی ڈی ایم رہنماؤں کے سامنے رکھے جائیں گے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد کہا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے فیصلوں پر گفتگو ہو گی اور حتمی فیصلے کیے جائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر یہ خبر درست ہے تو اس مسئلے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک صفحے پر آ گئی ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمٰن اس سلسلے میں کیا رائے اختیار کرتے ہیں۔

کیا پی ڈی ایم ختم ہو جائے گی؟

حزب اختلاف کی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات اور مختلف آرا سامنے آنے کے بعد پی ڈی ایم کے قائم رہنے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے جبکہ تحریک انصاف حکومت کے ترجمان تو ان اختلافات کو خصوصاً ہوا دینے اور پی ڈی ایم کے خاتمے کی پیش گوئیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔

پی ڈی ایم کے مشکوک مستقبل سے متعلق پیش گوئیوں کے برعکس جمعرات کی رات مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے ایک بیان دے کر نہ صرف کنفیوژن کو ختم بلکہ اتحاد کے ممکنہ خاتمے کے تمام خدشات کو زمیں بوس کر دیا ہے۔

نجی ٹی وی جیو نیوز کے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا: 'ہم اپنی بات ان کے سامنے رکھیں گے اور اگر وہ نہ مانیں تو ہم (ان کی بات) مان جائیں گے۔'

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے مسلم لیگ ن ضمنی و سینیٹ انتخابات اور استعفوں کے معاملات پر پیپلز پارٹی کی سوچ کے مطابق چلنے کو تیار ہے۔ 

رانا ثنااللہ نے مزید کہا: 'ہماری جماعت میں بھی دونوں سوچیں موجود ہیں، ہم پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کا موقف سنیں گے اور متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔'

انہوں نے واضح کیا کہ ان کی جماعت پی ڈی ایم کو قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ اسے مستقبل میں عمران خان کی حکومت کے خلاف زیادہ موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار شیراز پراچہ بھی سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم نہیں ہو گی اور موجودہ حکومت کے خلاف اہم مزاحمتی قوت کی حیثیت سے اسے قائم رہنا چاہیے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 'یہ سب نفسیاتی حربے ہیں، جو پی ڈی ایم کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔'

انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی پیدائش پیپلز پارٹی کی بلائی گئی اے پی سی میں ہوئی تو پیپلز پارٹی خود ہی اس اتحاد کو کیوں ختم کرے گی۔

شیراز پراچہ کا خیال تھا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو ایک سوچ کے حامی رہنما ہیں اور دونوں کا اپنی اپنی جماعتوں میں اثر و رسوخ بھی موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے بار بار این آر او نہ دینے کا تذکرہ بھی ثابت کرتا ہے کہ پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو پریشانی میں ڈالا ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی کی الگ سوچ

سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان حکومت ہٹانے کی غرض سے حزب اختلاف کی جماعتوں کو پی ڈی ایم کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بعد پیپلز پارٹی الگ راستہ کیوں اختیار کر رہی ہے؟

شاکر سولنگی کے خیال میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری حکومت مخالف شدید احتجاج کی صورت میں جمہوری نظام کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ 'ان کا موقف ہے کہ حزب اختلاف کے اسمبلیوں سے استعفے دینے کی صورت میں سیاسی بحران پیدا ہوگا جو پورے نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔'

ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلیشمنٹ پر بھروسہ بھی نہیں کرتی اور اسی لیے سندھ میں اپنی حکومت چھوڑنے اور اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کر رہی ہے۔

شاکر سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو ڈرا بھی رہے ہیں کہ انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہو جائے گی اور انہیں ظالمانہ اقدامات کا موقع مل جائے گا۔

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرمند تنگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے تمام اراکین اسمبلی نے استعفے پارٹی کے پاس جمع کروا دیے ہیں جو مناسب وقت پر سپیکرز کو بھیجے جائیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے میمورنڈم میں استعفے دینے کی تاریخ کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور لکھاری عرفان احمد بیگ کے خیال میں پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ نظریاتی تضادات کے علاوہ جماعتوں کے مفادات بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس صورت حال سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور خصوصاً مریم نواز کو لاڑکانہ بلا کر انہوں نے پوائنٹ سکور کیے۔

دوسری جانب شیراز پراچہ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات سے متعلق پیپلز پارٹی کی رائے بالکل درست ہے کیونکہ جیتی ہوئی نشستوں سے کسی بھی وقت استعفے دیے جا سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کیا کر سکتے ہیں؟

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن شروع سے حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کو انتہائی نقطے تک لے جانے کے حق میں ہیں۔ وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے اور ہر قسم کے انتخابات سے دور رہنے کے حامی ہیں۔

شاکر سولنگی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن استعفوں کے ذریعے ملک میں آئینی اور سیاسی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس کے باعث اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن سے بات چیت پر مجبور ہو جائے۔

انہوں نے کہا: 'مولانا کے خیال میں اگر کارڈز بہتر طریقے سے کھیلے جائیں تو اس بحران سے اچھا نکل سکتا ہے جبکہ زرداری صاحب کے خیال میں بحران برے نتائج بھی دے سکتا ہے اور ایسا رسک نہیں لینا چاہیے۔'

اس صورت حال میں سوال اٹھتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کیا فیصلہ کر سکتے ہیں؟

شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کو قائم رکھنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن دو بڑی جماعتوں کے ساتھ رہیں گے اور کوئی الگ لائن اختیار نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی چھوٹی جماعتیں مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز کی حامی ہیں اور ان دونوں رہنماؤں کا سٹینڈ ایک جیسا ہی ہو گا۔

شاکر سولنگی کا کہنا تھا کہ اگر آج کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کسی رائے پر متفق ہو جاتے ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

'وہ کہہ سکتے ہیں کہ سربراہی اجلاس میں اکثریت کی یہی رائے تھی اور اسی لیے اسے اپنایا گیا۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست