پولیس گردی کے شکار افراد کو انصاف کب اور کیسے؟

اسامہ ستی کے پولیس کے ہاتھوں قتل نے پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

22 سالہ اسامہ ستی کو یکم جنوری کو اسلام آباد پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا (ٹوئٹر)

پاکستان میں حال ہی میں اسلام آباد میں ماورائے عدالت قتل ہونے والا نوجوان اسامہ ستی پہلا شخص نہیں تھا بلکہ اسامہ پولیس گردی کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا جو پاکستان میں کئی برسوں سے جاری ہے۔

اس کے باوجود اب تک ماورائے عدالت ہونے والے قتل کی کوئی تحقیقات اور ملزمان کو سامنے لایا گیا ہے نہ ہی ان کو سزا دی گئی۔

عالمی تنظیموں کی اس حوالے سے ہر سال تشویش میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے جس میں حقائق کو واضح کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ بے باکی بھی آتی جا رہی ہے 16جون 2019 کو ایک صحافی محمد بلال خان کو، جو سیاسی معاملات پر ایک مقبول یوٹیوب چینل چلاتا تھا، اسلام آباد میں تیز دھار آلے کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔

اس پر صحافی تنظیموں سمیت عالمی ہیومن رائٹس تنظیموں نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ور قاتلوں کو فی الفور گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا مگر آج دو سال گزر جانے کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں ہے۔

19  جنوری 2019 کو پنجاب کے ضلع ساہیوال میں پولیس نے ایک کارروائی میں جس کا ہدف بقول پولیس کے ایک شدت پسند رہنما تھا، ایک کمسن بچی سمیت ایک ہی خاندان کے چار افراد کو مار دیا۔ تاہم گواہوں کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس نے متاثرہ خاندان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کی تھی۔

ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا اور وہ قتل کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، مگر دو سال گزر جانے کے بعد بھی اس واقعے میں بھی ملوث افراد کو اب تک سرکاری مہمان نوازی میں بغیر کسی سزا کے رکھا گیا ہوا ہے اور معاملے کو کسی ٹھکانے نہیں لگایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سانحہ ساہیوال میں اب تک دو سال گزر جانے کے بعد بھی چند سوال جوں کہ توں ہیں جو کہ پہلے دن سے ہی میڈیا سمیت عالمی تنظیموں نے اٹھائے تھے کہ کیا مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والا خاندان دہشت گرد تھا؟ کیا گاڑی کے شیشے واقعی کالے تھے؟ کیا پولیس اہلکاروں کو گاڑی میں خواتین کی موجودگی کا علم نہیں ہوا؟ اس واقعے میں ذیشان کا کیا کردار تھا؟ کیا پولیس کو گاڑی سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ ملا؟

یکم ستمبر کو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں صلاح الدین کو ایک اے ٹی ایم مشین سے پیسے چرانے پر گرفتار کیا گیا اوروہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔ ان کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ ایوبی ذہنی مریض تھے اور پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں ہونے والی فورینزک رپورٹ نے تشدد کے دعووں کی تصدیق کی تھی۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو سزائے موت کے بہت زیادہ قیدی رکھنے کے حوالے سے سرؚفہرست ہیں۔ دسمبر 2014 میں پاکستان میں پھانسی پر پابندی ہٹنے کے بعد سے 511 لوگوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں میں سے بیشتر سماج کے پسے ہوئے طبقوں سے ہیں۔

بلوچ افراد کے قتل میں ایک نام حیات بلوچ کا بھی ہے جس کے قاتلین کو اب تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے۔

اسامہ ستی کی موت پر انکوئری رپورٹ کی رپورٹ میں دلخراش تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسامہ ستی کو پولیس اہلکاروں نے اس وقت گولیاں ماریں جب انھوں نے اپنی گاڑی کو روک لیا تھا۔ پولیس کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کا مقصد حالات کو کنٹرول کرنا یا مقتول سے پوچھ گچھ کرنا نہیں بلکہ اس کو قتل کرنا ہی تھا۔

ایڈشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس جوڈیشل کمیشن کی انکوائری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان میں سے چار ملزمان نے گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائیں اور گولیوں کے نشانات سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گولیاں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر چلائی گئیں، جبکہ اس ضمن میں پولیس کا موقف تھا کہ گاڑی نہ روکنے پر پولیس اہلکاروں نے مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جائے حادثہ سے ملنے والی گولیوں کے 22 خول کو 72 گھنٹوں کے بعد فورینزک ٹیسٹ کے لیے بھجوایا گیا۔

وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس معاملے پر ہوش کے ناخن لے اور اس دیرینہ مسئلے کو حل کرے۔ اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں، موثر قانون سازی جس میں پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کی حدیں مقرر کی جائیں اور دوسری طرف پہلے سے کھلے پولیس گردی کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے تاکہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ