عالمی عدالتوں میں سبکی: عدلیہ کی مداخلت یا ناتجربہ کار قانونی ٹیم؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی طرف سے یکطرفہ معاہدے ختم کرنے اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف عالمی عدالتوں میں کیسز سے حکومت پاکستان اب تک وکیلوں اور عدالتی فیس کی مد میں لاکھوں ڈالرز ادا کرچکی ہے۔

براڈ شیٹ کی جانب سے عالمی عدالت میں دائر کیے گئے مقدمے کے بعد نیب  کی جانب سے بھاری جرمانے کی ادائیگی کے انکشافات بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں (فائل تصویر: پکسا بے)

حال ہی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ایک طیارے کو ملائیشیا میں اس وقت تحویل میں لے لیا گیا، جب مسافر اس میں سوار ہوچکے تھے اور طیارہ اڑان بھرنے کو تیار تھا۔ یہ ضبطگی لیزنگ کی رقم کی عدم ادائیگی کے معاملے پر ملائیشین عدالت کے حکم پر کی گئی، لیکن اس سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں نہ صرف قومی ایئر لائن کی بدنامی ہوئی بلکہ یہ سوال بھی کھڑا ہوا کہ آخر کب تک پاکستان عالمی مقدمات میں اس طرح بھاری جرمانے ادا کرتا اور سبکی اٹھاتا رہے گا۔

دوسری جانب عالمی فرم براڈ شیٹ کی جانب سے عالمی عدالت میں دائر کیے گئے مقدمے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بھاری جرمانے کی ادائیگی کے انکشافات بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی طرف سے یکطرفہ معاہدے ختم کرنے اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف عالمی عدالتوں میں کیسز سے حکومت پاکستان اب تک وکیلوں اور عدالتی فیس کی مد میں لاکھوں ڈالرز ادا کرچکی ہے۔

سینٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق: 'سپریم کورٹ کی طرف سے چار کیسز ریکوڈک، پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور کارکے رینٹل کیس میں مداخلت سے پاکستان کو کھربوں روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔'

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف قانونی ماہرین سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے اور اس کے سدباب کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، جو ریکوڈک اور کارکے کیسز کے وقت اٹارنی جنرل پاکستان تھے، نے اس معاملے پر ملکی عدالتوں کی مداخلت کو قصوروار ٹھہرایا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ جب ریکوڈک کیس کا فیصلہ آیا تو وہ اس وقت دوسری عدالت میں کیس میں مصروف تھے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اٹارنی جنرل پاکستان کا موقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ سنا کر معاہدہ کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کارکے کیس میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کی بے جا مداخلت اور خاص طور پر بین الا قوامی کمپنیوں سے معاہدے کی منسوخی میں پاکستان کو سبکی کی وجہ عدالتی دباؤ ہے۔ عدالتوں کو اپنے دائرہ کار کا پتہ ہوناچاہیے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول عرفان قادر: 'کارکے کیس میں بھی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے زیادتی کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان اور ترکی کے تعلقات بھی خراب ہوئے اور جرمانے الگ سے لاگو ہوئے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں میں اس طرح مداخلت کریں کیونکہ ان معاہدوں پر بین الاقوامی سرمایہ کاری قوانین لاگو ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بین الاقوامی عدالتوں میں پاکستان کے خلاف کیس دائر ہو جاتے ہیں۔

قانونی ٹیم کی اہلیت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ قانونی ٹیم کا انتخاب میرٹ پر ہو تو کیس جیتے جاتے ہیں۔ 'یہاں قابل وکلا موجود ہیں لیکن وکلا کا انتخاب معنی رکھتا ہے۔'

قانونی ماہر اور وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی اس سلسلے میں ملکی عدالتوں کے دباؤ کا ذکر کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: 'جہاں تک بات ریکوڈک، کارکے اور سٹیل ملز کا معاملہ ہے تو اس میں صریحاً اعلیٰ عدالت کی مداخلت ہے، جس کے باعث معاہدے منسوخ ہوئے اور اس کا یہی حل ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں میں ملکی عدالتوں کو دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔'

انہوں نے کہا کہ جہاں تک براڈ شیٹ کیس کا تعلق ہے تو اس میں پاکستانی وکلا کی ٹیم اور نیب ذمہ دار ہے کیونکہ یہ ان کی نااہلی ہے اور جان بوجھ کر معاملے کو خراب کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر حکومت بدعنوانی کرنا چاہے تو عالمی کیسز میں نااہل وکلا کی ٹیم منتخب کی جاتی ہے تاکہ ذاتی مقاصد پورے ہو سکیں۔'

عالمی عدالتوں میں چند کیسز جن پر پاکستان کو جرمانہ ہوا

ریکوڈک کیس

ریکوڈک کیس میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا۔ ریکوڈک بلوچستان میں واقع ایک مقام ہے جسے سونے اور تانبے کا بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔

 1993 میں اس وقت کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ذوالفقار علی مگسی نے ایک آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کو سونے کے ذخائر تلاش کرنے کے لیے ڈرلنگ کرنے کا ٹھیکہ دیا۔ بعد ازاں آسٹریلوی کمپنی نے چلی اور کینیڈا کی ٹیتھین کاپر کمپنی کو شراکت دار بنا لیا، جنہوں نے 2006 میں ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام شروع کیا۔

سول سوسائٹی اور مختلف این جی اوز اس معاملے پر فعال تھیں جس کے بعد یہ معاملہ 2008 میں سپریم کورٹ چلا گیا اور 2013 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ریکو ڈک گولڈ مائن کا معاہدہ ملکی منرل رولز اور قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔

ٹیتھین کاپر کمپنی نے معاہدہ منسوخی اور ہونے والے نقصان پر پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی عدالت سےرجوع کیا اور جولائی 2019 میں عالمی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے معاہدے کی منسوخی پر پاکستان کو آسٹریلیا اور چِلی کی کمپنیوں کو  چھ ارب ڈالرز جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا اور پاکستان کو کہا گیا کہ وہ مائننگ کمپنی ٹیتھین کو چار ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کے علاوہ ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم بھی ادا کرے۔

بعد ازاں پاکستان نے حکم امتناع تو لے لیا لیکن معاملہ تاحال اپنی جگہ موجود ہے۔

کشن گنگا کیس

بھارت نے وادی کشمیر سے نکلنے والے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم منصوبے کا 2007 میں آغاز کیا اور سفارتی سطح پر پاکستانی اعتراضات کو خاطر میں نہ لایا گیا، جس کے بعد پاکستان 2010 میں یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دریائے نیلم پربھارتی ڈیم بننے سے دریائے نیلم کا سارا پانی اس میں چلا جائے گا جو کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کی طرف آنے والا دریائی پانی نہیں روک سکتا جبکہ دریائے نیلم میں پانی کا بہاؤ کم ہونے سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی پروجیکٹ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

عدالت نے فروری 2013 میں بھارت کےحق میں فیصلہ کیا تاہم پاکستان کی نظرثانی درخواست میں جزوی فیصلہ پاکستان کے حق میں دیتے ہوئے بھارت کو ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

کارکے معاہدہ

2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ترکی کی کارکے کمپنی کا سمندری پاور پلانٹ ہنگامی بینادوں پر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے رینٹل ایگریمنٹ کر کے منگوایا تھا، جو بعد میں ملک کے وزیراعظم بنے۔

یہ سمندری پاور پلانٹ 2011 میں آٹھ ماہ تک کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں کھڑا رہا لیکن نہ تو اس سے بجلی بنوائی گئی اور نہ ہی اسے تیل فراہم کیا گیا۔

2012  میں مسلم لیگ کے رہنما خواجہ آصف کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے رینٹل پاور پالیسی کے تحت کیے جانے والے تمام معاہدوں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

معاہدہ کالعدم ہونے پر ترک کمپنی نے انٹرنیشل کورٹ فار سیٹلمنٹ آف انویسمنٹ ڈسپیوٹس سے رجوع کیا۔ اس عالمی مصالحتی ٹریبونل نے 2017 میں پاکستان پر ایک کروڑ 20لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کر دیا۔

حکومتی دعوے کے مطابق سفارتی سطح پر ترکی کے ساتھ برادرانہ مراسم ہونے کے باعث  اور ترکی کےصدر طیب اردوغان کی ذاتی کوششوں سے نومبر 2019 میں کارکے اپنے اس دعوے سے دستبردار ہوگئی اور یوں پاکستان خطیر رقم کی ادائیگی سے بچ گیا۔

پی آئی اے کیس

پی آئی اے نے 12 برس قبل لیزنگ کمپنی پیری گرین سے بوئنگ 777 طیارہ لیز پر حاصل کیا تھا، جس کے لیے فریقین کے درمیان ادائیگیوں کے معاملے پر تنازع چل رہا ہے۔

ترجمان پاکستان قومی ایئرلائن کے مطابق دبئی میں قائم لیزنگ کمپنی پیری گرین نے پاکستانی قومی ایئر لائن پرلندن اور ملائیشیا کی عدالت میں مقدمہ کیا تھا، جس میں کمپنی نے لیزنگ کی رقم کی عدم ادائیگی کا ذکر کیا ہے۔

سول ایوی ایشن حکام کے مطابق پیری گرین اور پی آئی اے کے درمیان 14 ملین ڈالر کا تنازع ہے جبکہ پی آئی اے کے موقف کے مطابق ملائیشین عدالت نے پی آئی اے کو سنے بغیر طیارہ ضبط کرنے کا حکم دیا۔

براڈ شیٹ کیس

2000  میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں نواز شریف، آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو اور دیگر کے غیر ملکی اثاثوں کا پتہ چلانےکے لیے اثاثہ جات ریکوری سے متعلق برطانوی فرم براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں لیکن بعد ازاں نیب کی جانب سے یہ معاہدہ 2003 میں ختم کردیا گیا تھا جس کے خلاف فرم نے ثالثی عدالت میں نیب کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے اگست 2016 میں نیب کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے جرمانہ اداکرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ لندن ہائی کورٹ میں مقدمہ ہارنے پر نیب نے لیگل فرم براڈ شیٹ کو جرمانے کے چار ارب اٹھاون کروڑ روپے ادا کردیے ہیں۔

کلبھوشن یادو کیس

بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کیس کے معاملے پر عالمی عدالت کے فیصلے کو دونوں فریقین اپنی فتح تسلیم کرتے ہیں لیکن قانونی ماہرین کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی صرف ایک استدعا منظور کی کہ پاکستان کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دے اور فیئر ٹرائل کا حق دے، جبکہ بھارت کی استدعا مسترد کردی گئی کہ کلبھوشن یاد کو رہا کر کے بھارت کے حوالے کیا جائے۔

عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو کلبھوشن یادو کا معاملہ پاکستانی قوانین کے مطابق کرنے اور فیئر ٹرائل مہیا کرنےکا فیصلہ کیا تھا۔ درحقیقت کلبھوشن کیس کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں پاکستان کے موقف کوتسلیم کیا گیا۔

عالمی عدالتوں میں پاکستان کو سبکی سے کیسے بچایا جائے؟

اس سوال کے جواب میں بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانونی معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سکیورٹی سے منسلک جیسے کلبھوشن یادو کیس، ایسے کیسز بھرپور تیاری کے ساتھ لازماً لڑنے ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے کمرشل کیسز ہوتے ہیں جیسے ریکوڈک، کارکے، پی آئی اے طیارہ لیز کیسز وغیرہ۔

انہوں نے بتایا کہ 'کمرشل کیسز ہمیشہ عدالت سے باہر حل کرنے چاہییں اور جو متاثرہ فریق ہے، جس نے ہرجانہ دائر کیا ہو، اس کے ساتھ معاملات طے کیے جانے چاہییں، تاکہ وہ کیس واپس لے لے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس کے لیے ضروری ہے کہ دو ریٹائرڈ ججز اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ پر مشتمل ٹیم بنائی جائے جو عدالت سے باہر معاملہ حل کروائے۔ سرکاری ملازم یہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں نیب کا نوٹس مل سکتا ہے۔'

احمر بلال صوفی کے مطابق: 'جہاں تک بات عدالتی مداخلت کی ہے تو پاکستان کی عدالتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ریاست کے اندر تو آزاد ہیں لیکن ریاست سے آزاد نہیں ہیں۔ عدالت کا ایسا کوئی فیصلہ جس سے پاکستان کا کوئی معاہدہ منسوخ ہو تو وہ پاکستان کا فیصلہ ہی سمجھا جائے گا اور نتائج پاکستان کوہی بھگتنے پڑیں گے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان