ابتدائی ویکسین ٹرائلز: آکسفورڈ نے رضاکاروں کو اندھیرے میں رکھا

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ابتدائی رضا کاروں کو آخری سٹیج پر ہونے والے کلینیکل ٹرائلز کے دوران ہونے والی غلطیوں کے بارے میں انکشاف سامنے آنے کے بعد بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

27 جنوری 2021 کی اس تصویر میں برطانیہ میں ایک خاتون کو کرونا وائرس کی ویکسین لگائی جارہی ہے (تصویر: اے ایف پی)

خبر رساں ادارے روئٹرز کو موصول ہونے والی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ آکسفورڈ اور ایسڑا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین کی تیاری کے دوران کیے جانے والے ٹرائلز میں تقریباً 1500 رضاکاروں کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا کہ انہیں غلط خوراک (ڈوز) دی گئی تھی۔

روئٹرز کے مطابق ابتدائی رضا کاروں کو آخری سٹیج پر ہونے والے کلینیکل ٹرائلز کے دوران ہونے والی غلطیوں کے بارے میں انکشاف سامنے آنے کے بعد بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

اس کی بجائے ان رضاکاروں کو اس غلطی کے بارے میں آٹھ جون کے لکھے جانے والے ایک خط میں ویکسین کی مختلف خوراکوں کے استعمال کے فوائد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ اس خط پر ان ٹرائلز کی سربراہی کرنے والے چیف انویسٹی گیٹر اور آکسفورڈ کے پروفیسر اینڈریو جے پولرڈ کے دستخط تھے۔ 

روئٹرز کے مطابق 24  دسمبر کو ان رضاکاروں کو آکسفورڈ کے محققین کی جانب سے ایک غلطی پکڑے جانے پر نصف خوراک دی گئی تھی جبکہ اینڈریو جے پولرڈ کے خط میں کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا گیا تھا۔

اس خط میں اس بات کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی تھی کہ محققین نے اس معاملے کی اطلاع برطانوی میڈیکل ریگولیٹرز کو دی ہے، جنہوں نے آکسفورڈ کو رضاکاروں کے ایک اور گروپ کو بھی مکمل ڈوز کے ٹرائلز میں شامل کرنے کا کہا تھا جو کہ ٹرائلز کے بنیادی منصوبے کے مطابق تھا۔

اس حوالے سے کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ اس غلطی سے ٹرائلز میں شامل افراد کی صحت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا یا نہیں۔

برطانیہ بھر میں زیر استعمال اس ویکسین کے حوالے سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور یہ وبا کے خلاف ایک سستے ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس ویکسین کی خوراکوں کے حوالے سے کی جانے والی سکروٹنی کی وجہ، ادھیڑ عمر افراد کے لیے اس ویکسین کے موثر ہونے اور اس حوالے سے ناکافی ڈیٹا کی موجودگی ہے، جو اس وائرس کے آسان شکار سمجھے جاتے ہیں۔

 

روئٹرز نے یہ خط فریڈم آف انفارمیشن قوانین کے تحت تین ماہرین صحت کے ساتھ دی جانے والی درخواست کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین اخلاقیات کا کہنا ہے کہ محققین نے ٹرائلز میں شامل رضا کاروں کے ساتھ شفافیت سے کام نہیں لیا اور کلینیکل ٹرائلز میں شامل رضاکاروں کو کسی بھی تبدیلی کے حوالے سے مکمل طور پر آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کے گراس مین سکول آف میڈیسن ایتھکس کے بانی سربراہ آرتھر ایل کپلین کا کہنا ہے کہ ’وہ اس بارے میں واضح نہیں ہیں جس بارے میں انہیں واضح ہونا چاہیے۔ کیا چل رہا ہے، انہیں کیا پتہ تھا اور تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کی وجہ کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آکسفورڈ کے ترجمان سٹیو پرٹ چارڈ کا کہنا ہے کہ ’نصف ڈوز والا گروپ منصوبے میں شامل نہیں تھا، لیکن ہم جانتے تھے کہ اس ڈوز کی پیمائش میں ایک نقص تھا اور ہم نے ڈوز دینے سے قبل ریگولیٹرز سے اس حوالے سے بات کی تھی اور پھر ڈوز پر نظر ثانی کی گئی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ڈوز کی پیمائش میں غلطی ہوئی ہے۔‘

پولرڈ نے اس بارے میں موقف دینے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ آسٹرازینیکا کے ترجمان نے اس بارے میں موقف دینے سے انکار کر دیا۔

پرطانوی حکومت کی ہیلتھ ریسرچ اتھارٹی ادویات کے درست ہونے اور ان کی تحقیق کی منظوری دینے کا کام کرتی ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ شرکا کو بھیجے جانے والا خط اور تحقیق کے ڈیزائن میں تبدیلی کی منظوری ان کی اخلاقی کمیٹی نے دی تھی۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں کئی ممالک آسٹرازینیکا ویکسین کے استعمال کی منظوری دے چکے ہیں جن میں امریکہ، یورپی یونین اور بھارت شامل ہیں۔ برطانیہ اس کی منظوری دینے والا پہلا ملک تھا اور برطانیہ میں چار جنوری سے اس ویکیسن کا استعمال شروع کیا جا چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت