گلگت کے فنکار حسین جانی ’زنانہ‘ لباس پر تنقید کی زد میں

سینیئر فنکار حسین جانی کو گلگت بلتستان کی ثقافتی اقدار کو نقصان پہنچانے کے الزام میں سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

حسین جانی کے مطابق  ڈرامے میں کپڑے موضوع کی مناسبت سے پہنے جاتے ہیں اور ان ہی کپڑوں میں مجھے پرفارم کرنا تھا۔ (تصویر عنایت ابدالی فیس بک پیج)

گذشتہ ہفتے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی خلتی جھیل میں سرمائی سیاحتی جشن منعقد کیا گیا، جہاں دیگر فنکاروں کے ساتھ ساتھ حسین جانی بھی شریک ہوئے۔

اگرچہ ان کو اس موقعے پر پرفارمنس کا موقع تو نہیں ملا لیکن وہاں موجود لوگوں کی ان کے ساتھ لی گئی سیلفیاں سوشل میڈیا پر ضرور تنقید کا سبب بنیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے حسین جانی کو ’زنانہ‘ لباس کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’زنانہ لباس پہن کر گلگت بلتستان کی ثقافتی اقدار کو نقصان پہنچایا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب حسین جانی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں ان کے چاہنے والے ہیں اور وہ ذاتی طور پر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کا مطلب کسی کی دل آزاری نہیں۔ ’اس سے پہلے میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے اس انداز میں مجھ پر تنقید کی ہو۔‘

حسین جانی 27 سال سے ایک مزاحیہ فنکار ہیں۔ انہوں نے 12 اصلاحی فلموں میں کام کیا، جو شینا زبان میں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 695 سٹیج ڈراموں میں بھی پرفارم کرچکے ہیں، جنہیں تحریر بھی انہوں نے خود کیا تھا جبکہ 30 ڈراموں کے سکرپٹ بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔

انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا جگلوٹ خلتی ان کا آبائی علاقہ ہے، جہاں سرمائی سیاحتی جشن منعقد ہوا تھا اور وہ بھی اس میں شریک تھے۔ ’میں نے ڈرامے کے لیے موضوع کی مناسبت سے کپڑے پہن رکھے تھے، تاہم خراب موسم اور نامناسب انتظامات کی وجہ سے پروگرام مختصر کرنا پڑا اور مجھے پرفارمنس کا موقع نہ مل سکا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میرا مقصد لوگوں کو ہنسانا تھا، نہ کہ کسی کی دل آزاری کرنا۔ میرے کپڑوں کو بنیاد بنا کر لوگ تنقید کر رہے ہیں۔ ڈرامے میں کپڑے موضوع کی مناسبت سے پہنے جاتے ہیں اور ان ہی کپڑوں میں مجھے پرفارم کرنا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے سیاسی کارکن عنایت ابدالی کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی فنکار کا لباس پسند نہیں، جو وہ اپنے فن کے مظاہرے کے دوران پہنتا ہے، تو اس کو نظر انداز کریں تاکہ اس کو پسند کرنے والوں کی دل آزاری نہ ہو۔

بقول عنایت ابدالی: ’معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے مخالف نظریے کے افراد کو آڑے ہاتھوں لینا معمول بن گیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بہت جلد گلگت بلتستان میں بھی تشدد کے عنصر کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ لوگوں کو صرف وہی صحیح لگتا ہے جو وہ سمجھتے ہیں اور باقی سارے اعمال کو غلطی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک عمل ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’حسین جانی وہ فنکار ہیں جو معاشرتی ناہمواری کو اپنے فن کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس لباس پر شور مچانا اور اسے ثقافت کے منافی قرار دینا یا ریاست کے ساتھ بےجا وفاداری سے تشبیہ دینا بالکل غلط بات ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان