حکومت کے لیے 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانا ممکن ہے؟

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔

(تصویر:  سینیٹ آف پاکستان  فیس بک پیج)

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترمیمی بل میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے غیر ملکی شہریت رکھنے والے پاکستانی شہریوں پر قدغن ختم کرنے کا بھی ذکر موجود ہے۔

سینیٹ انتخابات سے متعلق ترمیمی بل قومی اسمبلی میں تو پیش کر دیا گیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی حمایتی جماعتیں خفیہ رائے شماری کو شو آف ہینڈ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گی یا نہیں؟

پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شاکر سولنگی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کے لیے 26ویں ترمیم منظور کروانا تقریباً ناممکن ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ترمیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے پاس موجود نہیں جبکہ سینیٹ میں تو حزب اختلاف کی جماعتوں کی واضح اکثریت ہے۔

انہوں نے  مزید کہا کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بھی بہت زیادہ ہیں جو اس ترمیم کی منظوری کے راستے میں دوسری رکاوٹ ثابت ہو ں گے۔

’جب حکومت اور اپوزیشن بنچز کے درمیان آرا کا اختلاف اتنا زیادہ ہو جتنا اس وقت ہے تو ایسے میں دونوں کا ترمیمی بل کی منظوری پر متفق ہونا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف حکومت پر 26ویں ترمیم کے حوالے سے حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ منگل کو اسمبلی کے اجلاس میں بھی ان کے ایم این ایز کو بل پر بولنے نہیں دیا گیا۔

ان کا دعوی تھا کہ ترمیمی بل کے اندراجات سے عمران خان حکومت کی ’بدنیتی‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دہری شہریت کی قدغن دور کرنے سے متعلق تجویز کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مقصد وزیر اعظم عمران خان کے ملکی شہریت رکھنے والے دوستوں کو سینیٹ میں لانا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیشتر مشیران اور معاونین خصوصی پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں کی شہریت بھی رکھتے ہیں، جو موجودہ حالات میں آئین پاکستان کے تحت کسی بھی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اسلام آباد کی سینیئر صحافی اور یوٹیوب پر سیاسی ویلاگر حرا وحید کا کہنا تھا کہ حکومت نے 26ویں ترمیمی بل کی تیاری اور پیش کرنے میں بہت جلدی سے کام لیا اور حزب اختلاف اور دوسرے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جب سینیٹ انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے تو آئینی ترمیم کو اس طرح لے کر آنا پلاننگ کی عدم موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔

حرا وحید نے مزید کہا کہ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے فاٹا انضمام سے متعلق 25ویں آئینی ترمیم کے لیے بہت زیادہ کام ہوا تھا جبکہ موجودہ ترمیم سے متعلق تو حزب اختلاف کے ساتھ کوئی اجلاس بھی نہیں کیا گیا۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسی صورت حال میں کیسے ممکن ہو گا کہ حکومت دو تہائی اکثریت اور حزب اختلاف کے تعاون نہ ہونے کے باوجود قانون سازی کر پائے گی؟

حرا کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی واضح اکثریت کو دیکھتے ہوئے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہاں سے اس بل کی منظوری بالکل ممکن نہیں ہے۔

26ویں ترمیمی بل کے پیش کیے جانے کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علما اسلام (فضل الرحمان) کے ایم این ایز نے بھرپور مخالفت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتیں اس ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے 26ویں ترمیم سے متعلق اپنی جماعت کا موقف پیش کرتے ہوئے منگل کو کہا تھا کہ وہ اس بل کی پوری شدت سے مخالفت کریں گے۔

مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت نے بل میں چئیرمین سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کا ذکر نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے سینیٹرز کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ہونے والے تمام انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کی ترمیم لے آئی جائے تو ان کی جماعت اس پر غور کر سکتی ہے۔

حزب اختلاف دس جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کا اہم اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے جس میں چھبیسویں ترمیمی بل پر بات اور حتمی فیصلہ بھی ہونے کا امکان ہے۔

پی ڈی ایم کی تین بڑی رکن جماعتوں کے اختلاف کے بعد امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دس رکنی اتحاد بھی سینیٹ میں شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کروانے سے متعلق آئینی ترمیم سے اپنی راہیں جدا رکھے گی۔

شاکر سولنگی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم یا حزب اختلاف کی کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت یا سٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کا حصہ بن سکیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’سٹیبلیشمنٹ کی اس ترمیم میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے تو وہ کیوں اپوزیشن کے ساتھ ڈیل کی کوشش کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت میں ایکسٹینشن اور فیٹف قومی اہمیت کے معاملات تھے جس پر اسٹیبلیشمنٹ کی بھی دلچسپی تھی اور ان کی نزاکت کو حزب اختلاف بھی محسوس کر سکتی تھی، اسی لیے ان دونوں مواقعوں پر قانون سازی سہل انداز سے ہوئی۔

’اب پی ڈی ایم یا کوئی بھی دوسری جماعت حکومت سے کیا ڈیل کر سکتی ہے؟ انہیں حکومت کیا دے سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔‘

حرا وحید کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے چئیرمین سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے خوب فائدہ اٹھایا تھا، لیکن اب انھیں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت کا خیال آ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوہری شہریت کی قدغن ختم کرنے سے متعلق تجویز پر انہوں نے کہا کہ اس پر کہی کوئی اتفاق نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔

حرا وحید نے 26ویں آئینی ترمیم کا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے سلسلے میں اپنے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بل بالکل نہیں منظور ہو سکے گا کیونکہ تحریک انصاف کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں اور حزب اختلاف بل کی حمایت پر راضی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔‘

یاد رہے کہ سینیٹ کے آدھے اراکین کی مدت رکنیت گیارہ مارچ کو ختم ہو رہی ہے، جس سے قبل خالی ہونے والی نشستوں کے انتخابات کروائے جائیں گے، جو دس فروری سے دس مارچ کے درمیان کسی بھی وقت منعقد ہو سکتے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت نے خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی صدارتی ریفرنس دائر کیا ہوا ہے جس کی سماعت جاری ہے۔

پاکستان کے آئین میں ترمیم پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے ہی منظور کروائی جا سکتی ہے، جو تحریک انصاف حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی سادہ اکثریت ہے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن کو واضح برتری حاصل ہے اور ایسی صورت میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے اپوزیشن کی حمایت کے بغیر کسی بھی ترمیم کو منظور کروانا ممکن نظر نہیں آتا۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے حق میں بولتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانے سے ووٹوں کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی ہو گی اور الیکشن میں شفافیت آئے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست