ایورسٹ سر کرنے کا جعلی دعویٰ: دو بھارتی کوہ پیماؤں پر پابندی

نیپال نے 2016 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا دعویٰ کرنے والے دو بھارتی شہریوں اور ان کے ٹیم لیڈر پر تحقیقات کے بعد چھ سال کے لیے ملک میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔

کوہ پیماؤں کی جانب ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے جعلی دعوے نیپال کے لیے نئے نہیں ہیں۔(اے ایف پی فائل)

نیپال نے دو بھارتی کوہ پیماؤں اور ان کی ٹیم کے لیڈر پر اس وقت چھ سال کی پابندی عائد کردی جب تحقیقات کے بعد نیپالی حکام پر انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے 2016 میں جعلی طور پر ایورسٹ سر کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ 

نیپال کی حکومت نے بھارتی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما نریندر سنگھ یادو اور سیما رانی گوسوامی کے سمٹ سرٹیفکیٹ کو بھی منسوخ کردیا جب کہ چار سال کی تحقیقات کے بعد ان دونوں کو نیپال میں کوہ پیمائی سے روک دیا گیا ہے۔

2016 میں اس جوڑے نے دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنی تصاویر شیئر کی تھیں اور نیپال کے محکمہ سیاحت نے انہیں سمٹ سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا تھا۔

اگست 2020 میں یادو کو بھارتی حکومت کی جانب سے ممتاز ’تینزنگ نورگے ایڈونچر ایوارڈ‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم اس جوڑے کی جانب سے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے دعووں پر اس وقت سوالات اٹھائے گئے جب 14 رکنی نجی مہم کے شریک کوہ پیماؤں نے چوٹی تک پہنچتے بغیر انہیں نیچے اترتے دیکھا تھا۔

ایوارڈ کو بھارتی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کی وجہ سے روک دیا تھا جب کہ یہ معاملہ 2016 میں ہی نیپالی حکومت کی نظر میں آ گیا تھا۔ 

تحقیقات کے بعد نیپال کی وزارت ثقافت، سیاحت اور شہری ہوا بازی (ایم او سی ٹی سی اے) نے تحقیقات میں پایا کہ یادو نے جعلی تصاویر شیئر کیں اور دستاویزات میں ہیر پھیر کیا تھا۔

نیپال کے سیاحت کے عہدیدار پردیپ کمار کوئرالہ نے ’دا انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا: ’ہماری تحقیقات میں ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے (تصاویر سمیت) جعلی دستاویزات جمع کروائی ہیں۔ دستاویزات اور متعلقہ عہدیداروں بشمول شرپاز (ماہر نیپالی کوہ پیما) کے ساتھ بات چیت کی بنا پر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔‘

گذشتہ سال جب تنازع شروع ہوا تھا، کوہ پیماؤں نے بتایا کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی پر یادو کی تصویروں میں کچھ واضح غلطیاں پائی گئیں۔ ان میں برف پر ان کا عکس اور دھوپ کے چشمے میں پہاڑوں کا عکس غائب تھا، آکسیجن ماسک اور آکسیجن ٹینک سے جڑنے والا کنیکشن موجود نہیں تھا اور ساکت جھنڈے تھے۔

نیپال کی حکومت نے پایا ہے کہ یادو نے نیپال ٹورزم ایکٹ 1978 کے تحت ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزارت سیاحت نے دو مقامی افراد اور اس مہم کی منتظم کمپنی کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔

ان کی ٹیم کے لیڈر نابا فوکون، جنہوں نے تصویروں میں غلطیوں کے بارے میں پہلے آواز اٹھائی تھی، پر بھی چھ سال کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وزارت نے شیرپا داوا (گائیڈ) پر دس ہزار نیپالی روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے ، جو اس مہم میں یادو اور رانی کے ساتھ تھے۔

حکام نے ’سیون سمٹ پیکس‘ نامی مقامی کمپنی پر بھی جرمانہ عائد کیا جس نے 14 رکنی سمٹ کا انعقاد کیا تھا۔

فوکون نے بتایا کہ دونوں کی حالت بگڑ رہی تھی اور اس لیے انہیں اترنے کو کہا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ان کے آکسیجن سلنڈر کام نہیں کر رہے تھے اور ان کا گائیڈ بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ ان کی حالت دیکھ کر میں نے ان دونوں کو واپس (بیس کیمپ ) پہنچنے کو کہا۔ بعدازاں میں نے رانی سے لاہوتس فیس پر ملاقات کی اور ان کو فروسٹ بائٹ ہو چکا تھا۔ میں نے بیس کیمپ پر مددگاروں کو بلایافون ملیا اور انہوں نے اس کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ یادو پہلے ہی بیس کیمپ کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔‘

یادو نے پہلے بھی کہا تھا کہ ان کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے سمٹ کو مکمل کیا ہے تاہم نیپال کی وزارت سیاحت نے کہا ہے کہ وہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کے بیانات شیرپا سے مماثلت نہیں رکھتے۔

کوہ پیماؤں کی جانب ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے جعلی دعوے نیپال کے لیے نئے نہیں ہیں اور ملک پہلے ہی جعلی دعویداروں کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ نیپال کو ملک میں کاروبار بڑھانے کی ضرورت ہے جو زیادہ تر کوہ پیمائی پر منحصر ہے اس کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں اس نے تیزی سے ایورسٹ پرمٹ جاری کیے ہیں۔ اس اقدام سے بھی جعلی دعووں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

2017 میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دو پولیس افسران کو ایک تفتیش کے بعد ملازمت سے اس وقت برطرف کردیا گیا جب انہوں نے ایورسٹ کو سر کرنے کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔

اس کے باوجود بھارت کے پاس بہت سے کامیاب کوہ پیما بھی ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

اوتار سنگھ چیمہ 1960 کی دہائی میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پہلے بھارتی اور دنیا کے 16ویں کوہ پیما تھے۔ بیچندری پال پہلی بھارتی خاتون تھیں جنہوں نے 1960 کی دہائی میں ہی یہ چوٹی سر کی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا