سینیٹ: پیپلز پارٹی کے سندھ سے نامزد امیدواروں پر اعتراض کیوں؟ 

صوبے کی حکمران جماعت نے سینیٹ الیکشن کے لیے سندھ سے جن ناموں کا اعلان کیا ہے، ان میں سے کچھ پر عوامی حلقے اعتراض کر رہے ہیں۔

چند روز قبل پی پی پی نے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے(فائل تصویر: اے ایف پی)

صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سینیٹ کے لیے نامزدگیوں میں ’سندھ سے باہر کے‘ چند ناموں پر صوبے کے لوگ تنقید کر رہے ہیں۔  

آئندہ ماہ سندھ سے تعلق رکھنے والے 11 سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے، جن میں سات سینیٹرز کا تعلق پی پی پی اور چار کا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ہے۔ ان 11 نشستوں میں سے سات جنرل، دو ٹیکنوکریٹ اور دو خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں۔  

سندھ سے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں پی پی پی کے فاروق ایچ نائیک، اسلام الدین شیخ، رحمٰن ملک، شیری رحمٰن، گیان چند، سلیم مانڈوی والا اور سسی پلیجو شامل ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے محمد علی سیف، خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ اور نگہت مرزا بھی رخصت ہو جائیں گے۔  

چند روز قبل پی پی پی نے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا، جن میں جام مہتاب، تاج حیدر، سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، شہادت اعوان شامل ہیں جبکہ ٹیکنوکریٹ نشسستوں کے لیے شہادت اعوان، فاروق ایچ نائیک، ڈاکٹر کریم خواجہ اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے پلوشہ خان، خیر النسا مغل جبکہ رخسانہ شاہ کوورنگ امیدوار ہوں گی۔ 

ان ناموں میں سے فاروق ایچ نائیک اور پلوشہ خان کے ناموں پر اعتراض کیا جارہا ہے کیونکہ ان کا تعلق سندھ سے نہیں مگر سینیٹ کے لیے انہیں سندھ سے نامزد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پلوشہ خان پی پی پی کی ڈپٹی سیکریٹری ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ فاروق ایچ نائیک نے بڑا عرصہ تعلیم اور وکالت کے سلسلے میں کراچی میں تو گزارا ہے، مگر ان کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔

اس کے علاوہ یہ اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں کہ سندھ سے نامزد امیدواروں میں سے اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے جبکہ صوبے کے ان اضلاع کے، جہاں سے پی پی پی نے اکثریت ووٹ حاصل کیے، امیدواروں کو نظرانداز کردیا گیا۔   

اسلام آباد میں پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی ایم بی سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان پیپلز پارٹی ماضی میں بھی دوسرے صوبوں کے امیدواروں مثلاً رحمٰن ملک اور دیگر کو سندھ سے سینیٹر کے طور پر منتخب کرواتی رہی ہے اور سندھ سے دیے گئے ناموں میں سے اکثریت کا تعلق کراچی سے ہوتا ہے، جنہیں فہرست میں اوپر رکھا گیا ہے تاکہ ان کی کامیابی یقینی ہوجائے۔‘ 

دوسری جانب کراچی کے صحافی رزاق ابڑو سمجھتے ہیں کہ ’سندھ کے لوگوں کا اعتراض کسی حد تک درست ہے کیوں کہ قومی اسمبلی ملک کی فیڈریشن کی اکائیوں کی آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کرتی ہے جبکہ سینیٹ میں آئینی طور پر سب اکائیوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے تاکہ ہر ایک اکائی کا برابر حصہ ہو، وہاں اگر کسی صوبے میں دوسرے صوبے کے لوگوں کو نامزد کیا جائے تو یہ مناسب نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح تجزیہ نگار منظور شیخ نے کہا: ’سندھ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پی پی پی ایک سندھی قوم پرست جماعت کی طرح کام کرے گی مگر پی پی پی خود کو چاروں صوبوں کی جماعت سمجھتی ہے، اس لیے وہ کوئی تفریق نہیں رکھتی۔‘

ان کے مطابق پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 کا آئین دیا جس کے بعد پاکستان میں کوئی بھی فرد کسی بھی صوبے میں ملکیت خریدنے یا رہنے کا حق رکھتا ہے، اس سے دوسرے صوبوں سے سندھ میں بڑے پیمانے پر آبادکاری ہوئی، جس پر مقامی لوگوں کو اعتراضات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب کوئی سندھی زبان بولنے والا سینیٹر ہوتا ہے تو وہ سندھ کے اہم مسائل جیسے کہ پانی کا معاملہ، این ایف سی ایوارڈ، سندھ میں دوسری قومیتوں کی آبادی سمیت دیگر مسائل پر بات کرتا ہے مگر جب سندھ کے کوٹے پر کسی اور صوبے کا سینیٹر منتخب ہوتا ہے تو وہ سندھ کے بنیادی مسائل پر ایوان بالا میں آواز نہیں اٹھاتا، سندھ کے لوگوں کو یہی اعتراض ہے اور اس سے سندھ میں پہلے سے موجود احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔‘

اس حوالے سے بلاول ہاؤس کراچی کے میڈیا سیل کے انچارج سریندر ولاسائی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں واضح کیا کہ پی پی پی ایک قومی سطح کی سیاسی جمہوری پارٹی ہے، جس میں مشاورت سے کسی بھی رہنما کی نامزدگی ہوتی ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے اور پارٹی کے اندر کسی کو اعتراض نہیں۔ 

سریندر ولاسائی نے کہا: ’صرف پارٹی کے مخالف اعتراض کر رہے ہیں، انہیں تو ویسے بھی بہانہ چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف نے سندھ سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ شیخ کو اسلام آباد سے سینیٹ کے لیے نامزد کیا، ان کی نامزدگی پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں، پھر پی پی پی کی نامزدگی پر اعتراضات کیوں؟‘  

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست