پاکستان فوج کے بیان نے طالبان کو حقیقت دکھا دی: افغانستان

پاکستان کے لیے افغانستان کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس بیان سے اعتماد سازی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ مضبوط ہوگا۔

داؤد زئی پاکستان کے لیے کوئی نیا نام نہیں،  وہ ماضی میں  یہاں افغانستان کے سفیر رہ چکے ہیں (اے ایف پی)

افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے لیے نمائندہ خصوصی محمد عمر داؤد زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان فوج کا حالیہ بیان، جس میں اس نے کہا کہ طالبان اب اقتدار میں کبھی واپس نہیں آسکتے، پہلا ایسا بیان ہے جس کی وہ تعریف کرتے ہیں۔

قطر معاہدے کا ایک سال مکمل ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں داؤد زئی نے پاکستان فوج کے ترجمان کے حالیہ بیان کو، جس میں اس نے طالبان کی اقتدار میں واپسی ناممکن قرار دیا تھا، بڑا اچھا تسلیم کیا۔

’افغانستان کے میڈیا اور دیگر فورمز پر اس پر بحث ہو رہی ہے کیونکہ یہ غیرمعمولی ہے۔ ماضی میں ہم نے سویلینز سے ایسے بیان سنے تھے لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا بیان ہمارے لیے نیا ہے۔ ہم اس بیان کے لیے ان کی تعریف کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سے اعتماد سازی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ مضبوط ہوگا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بیان سے طالبان کیا حوصلہ یا مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش تو نہیں کھو دیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا قطر معاہدے اور سفارتی اثرو رسوخ سے گذشتہ چند ماہ میں مورال مضبوط ہوا تھا۔ ’ان کا خیال تھا کہ وہ سارا کیک جیت رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کے بیانات انہیں واپس حقیقی دنیا میں لے آئیں گے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔‘

داؤد زئی نے شاید پہلی مرتبہ طالبان کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ لوگ نہیں چاہتے کہ طالبان ختم ہو جائیں۔ ’وہ یہ نہیں چاہتے لیکن دنیا میں کوئی بھی انہیں تمام کیک دینے کے بھی حق میں نہیں۔ کوئی بھی ان کی اسلامی امارت کی واپسی نہیں چاہتا۔ اب ایک قریبی ہمسایہ ملک کی فوج کا ایسا بیان طالبان کے امن کے لیے رویے میں بہت دور رس نتائج رکھتا ہے۔‘

افعان صدر نے داؤد زئی کو گذشتہ برس پاکستان کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا۔ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں افغانستان میں پاکستان کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا ہو۔

داؤد زئی پاکستان کے لیے کوئی نیا نام نہیں۔ وہ یہاں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایران میں بھی اپنے ملک کے لیے یہ اہم ذمہ داری ادا کرچکے ہیں۔

وہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں دیے گئے اس انٹرویو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ’ہم نے یہ تبدیلی دیکھ لی ہے۔ میں پانچ چھ ماہ سے خصوصی نمائندہ ہوں تو میں پاکستان کی سویلین اور فوج دونوں کی جانب سے مرحلہ وار بتدریج مثبت رویہ دیکھ رہا ہوں۔‘

64 سالہ داؤد زئی کابل کے شمالی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2007 میں وہ اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔

اس نشست میں ان سے افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی بات ہوئی۔ ان سے جاننا چاہا کہ افغان حکومت قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے ایک سال بعد ملک کو کہاں کھڑا دیکھتی ہے؟

اس معاہدے سے بظاہر لگتا ہے کہ اب تک اس کا صرف امریکہ کو فائدہ ہوا ہے کیوں کہ طالبان نے ان پر حملے بند کر دیے ہیں لیکن عام افغان اب بھی بھاری نقصان اٹھا رہے ہیں۔

داؤ دزئی اس تاثر سے متفق دکھائی دیے۔ ’ہاں یہ درست ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ پچھلے ایک سال میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا لیکن دسیوں ہزار افغان چاہے وہ افغان فوجی ہوں، عام لوگ ہوں، دانش ور ہوں، نوجوان پڑھی لکھی نسل ہو، ان کو زیادہ شدت سے نقصان پہنچا۔ ہمیں تشویش ہے اسی لیے ہماری ترجیع ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے راستے تلاش کریں۔‘

اس تناظر میں قطر میں گذشتہ برس ستمبر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں کوئی نئی پیش رفت نہیں دیکھی جا رہی۔ ان سے پوچھا کہ ہم سن رہے ہیں کہ مذاکرات تین چار روز قبل دوبارہ شروع ہوچکے ہیں لیکن کیا ہمیں واقعی ان سے کسی نتیجے کی توقع کرنی چاہیے؟

داؤد زئی نے اس کے لیے طالبان کے مستقل مزاج ہونے کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ تعطل کی وجہ کئی ماہ تک کرونا اور طالبان رہنماؤں کا سفر تھا۔

’ہمیں امید اور خواہش ہے کہ وہ زیادہ تواتر کے ساتھ ہوں جیسا کہ وہ امریکیوں کے ساتھ مذاکرات میں مستقل مزاج تھے۔ اس دوران تواتر سے بات چیت ہو رہی تھی وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے دباؤ ڈال رہ تھے۔

’ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان وہی رویہ اپنائیں۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم مستقل دوحہ میں ہے۔ طالبان بھی مستقل مزاج بنیں۔‘

دوبارہ پوچھا کہ قطر میں کیا کوئی پیش رفت ہو بھی رہی ہے یا نہیں تو انہوں نے نتائج کی توقع کو قدرے قبل از وقت قرار دیا۔ ’ہم نے ابھی ایک دوسرے سے ملنا شروع کیا ہے۔ وہ متفق ہوئے ہیں کہ رابطہ گروپس کی ملاقاتیں جاری رہیں۔

’میں نے یہ سنا ہے کہ جب اصل مذاکرات کا آغاز ہو تو وہ مستقل بنیادوں اور تیز رفتار سے ہوں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں نتائج کل مل جائیں لیکن یہ ایک 40 برسوں پر محیط پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کے افغانستان پر اثرات و خدشات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا لیکن وہ اس کا حصہ بھی نہیں تھے۔

’اب امریکی پالیسی میں تبدیلی آیہ ہے کیونکہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہوا تھا اور اب جو بائیڈن ہیں جن کی مختلف پہلوؤں کے بارے میں مختلف رائے ہے۔ اب اس معاہدے اور اپنے موقف کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ اس کے لیے وہ کئی ماہ کا وقت لے سکتے ہیں۔ ہمارے لیے جو قدم بھی ہمیں امن کے قریب لاتا ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘

گفتگو کا رخ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب موڑتے ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ وہ مزید کیا توقعات رکھتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ فی الحال وہ قدرے مطمئن ہیں تاہم بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔

’جب وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں افغانستان کا دورہ کیا تو انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اپنی دسترس میں جو بھی ممکن ہوا اس جنگ کے خاتمے کے لیے وہ کریں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ بتائیں مزید کیا کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نہیں کرسکیں گے تو ہم بتا دیں گے لیکن جو ہم کرسکتے ہوں گے ہم کریں گے۔ اس کے بعد ہم نے میری قیادت اور صدر عنی کی ہدایات پر ایک روڈ میپ تیار کیا ہے۔‘

داؤد زئی سے اس مرتبہ آنے کی وجہ جاننا چاہی کہ کیا وہ کسی خاص پیغام کے ساتھ آئے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ یہ معمول کا نہیں اور نہ ہی کوئی خصوصی دورہ ہے۔

’یہ کچھ بین بین ہے۔ کچھ نئی چیزیں تھیں جو میں نے انہیں پیش کیں۔ ہماری وفود کی سطح پر کل رات بہت اچھی بات چیت ہوئی۔ کچھ نئے پہلوؤں پر نیک نیتی سے کام کرنے پر بات ہوئی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا