چترال: پہاڑی سے گرنے والا برفانی چیتا دوران علاج مر گیا

پشاور چڑیا گھر کے مطابق حادثے میں مادہ چیتا کا پچھلا دھڑ مفلوج ہو چکا تھا، چڑیا گھر کے عملے سے اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے علاقے آرکری رباط میں ایک پہاڑی سے گر کر اپاہج ہونے والی مادہ چیتا کی پشاور چڑیا گھر میں دوران علاج موت واقع ہو گئی۔

چڑیا گھر نے ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ حادثے میں چیتے کا پچھلا دھڑ مفلوج ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے اس کی حالت کافی ابتر تھی۔ چڑیا گھر کے عملے نے اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔

پشاور چڑیا گھر میں اس چیتے کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹر عبدالقادر نے نامہ نگار اانیلا خالد کو بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث اس کا بچنا ممکن نہیں تھا، تاہم آخری وقت تک اسے مرہم پٹی اور دواؤں کے ذریعے آرام پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

’اونچائی سے گرنے کے باعث اس کو پیٹھ کے ساتھ چہرے پر بھی چوٹیں لگی تھیں، جس کی وجہ سے اس کے ناک سے بہت خون بہا۔ اسی حالت میں وہ کافی دیر تک رینگتا رہا، پھر کمزور ہو کر ایک جگہ ڈھیر ہو گیا اور اسی حالت میں کئی دن سخت سردی میں بھوکا پیاسا رہا۔‘

ڈاکٹر قادر نے مزید بتایا کہ تین دن قبل جب یہ چیتا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے سب سے پہلے اس کی مرہم پٹی کی، اس کو اینٹی بائیوٹیک دوائیں دیں، کمر کا ایکسرے لیا اور اس کے جسم میں خوراک اور پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے ڈرپس بھی لگائیں۔ 

’وہ کسی حد تک سنبھل گیا تھا لیکن اس کو بیرونی چوٹوں کے ساتھ اندرونی چوٹیں بھی آئی تھیں اور اس کے جسم کا پچھلا حصہ تقریباً مردہ ہو چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ باوجود علاج کے کل رات اس کی موت واقع ہوئی جس کا مجھے افسوس ہے۔‘

برفانی چیتے کی نسل پاکستان میں ناپید ہو رہی ہے اور ملک کے شمالی علاقوں میں ان کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ چترال میں پہاڑی سے گر کر زخمی ہونے والی مادہ چیتا کو مقامی نوجوانوں نے ریسکیو کر کے ایک رات اپنے ساتھ رکھا تھا۔

چترال سے تعلق رکھنے والے صحافی فیاض احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس نایاب نسل کے چیتے کو مقامی نوجوانوں نے ریسکیو کر کے اپنے گھر میں رکھا اور اس کی دیکھ بھال کی۔‘ فیاض کے مطابق عام حالت میں جب چیتا صحت مند ہو تو اس کو اتنی آسانی سے نہیں پکڑا جا سکتا کیوں کہ وہ کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ’چونکہ یہ مادہ چیتا گر کر زخمی ہوئی تھی اور چلنے سے قاصر تھی لہٰذا نوجوانوں نے اسے آسانی سے ریسکیو کرنے کے بعد اگلی صبح وائلڈ لائف ڈویژن کے حوالے کر دیا۔‘

پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق جس علاقے میں یہ چیتا زخمی ہوا وہاں پر علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسے پشاور منتقل کرنا پڑا۔ چڑیا گھر کے انچارج اشتیاق وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چیتے کو چترال وائلڈ لائف نے علاج کے لیے پشاور چڑیا گھر منتقل کیا تھا۔

دوسری جانب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج منڈیاں ایبٹ آباد کے شعبہ حیوانیات میں کامن لیپرڈ پر ریسرچ کرنے والے طالب علم محمد اسامہ نے نامہ نگار انیلا خالد کو بتایا کہ ’سردیوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف باری کے باعث اکثر چٹانیں نمی کی وجہ سے چیتوں کے پھسلنے کا باعث بن جاتی ہیں، ہلاک ہونے والے چیتے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ ایک دفعہ کسی جانور کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو اس کا بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن علاج سے اس کی تکلیف کم ہوئی ہوگی۔‘

اسامہ نے کہا کہ پاکستان میں عام چیتے اور برفانی چیتے کی قسم نایاب ہوتی جارہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ بالکل ہی ناپید ہو جائیں اور آنے والی نسلیں ان کو دیکھنے سے ہی محروم ہو جائیں، لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جلد از جلد ان کے لیے کنزرویشن مراکز قائم کرے تاکہ وہاں ان کی افزائش نسل ہو۔‘

محمد اسامہ نے مزید بتایا کہ ’کسی بھی قیمتی جانور کے مرنے کے بعد اس کو حنوط کیا جاتا ہے اور یہ عمل کس بھی جانور کے مرنے کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں کتنے برفانی چیتے ہیں؟

دنیا بھر میں برفانی چیتے کو درپیش خطرات کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری امریکی ادارے سنو لیپرڈ ٹرسٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 200 سے 420 تک برفانی چیتے موجود ہیں جو زیادہ تر شمالی علاقہ جات کے قراقرم اور ہندو کش رینج کی پہاڑیوں میں پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں برفانی چیتے تقریباً 80 ہزار کلومیٹر پر محیط پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں جن کی بقا کو سکڑتے ہوئے مسکن، شکار اور تنازعات کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) نے برفانی چیتے کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کیا ہے، جن کی نسل کے دنیا سے ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

آئی یو سی این کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں شاید ساڑھے تین ہزار کے قریب برفانی چیتے رہ گئے ہیں، جنہیں بچانے کے لیے سنو لیپرڈ ٹرسٹ پاکستان، بھارت، کرغستان سمیت ایسے ممالک، جہاں برفانی چیتے موجود ہوں، کے ساتھ مل کر انہیں ڈھونڈنے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔

ان طریقوں میں ایک کیمرے لگانے کا طریقہ بھی ہے۔ برفانی چیتوں کے ممکنہ مسکن میں لگائے گئے یہ کیمرے سالہا سال کام کرتے ہیں تاکہ کسی بھی وقت وہ برفانی چیتے کی نقل و حرکت کو محفوظ کر سکیں۔


نوٹ: ابتدائی خبر اتوار (21-2-28) کو پوسٹ کی گئی، جسے پیر کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات