سینیٹ الیکشن کے بعد

حکومتی پارٹی نے دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔ اس وقت قبل از وقت ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ووٹ میں حکومت کو کامیابی ہوگی یا ناکامی۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔

تند و تیز بیانات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے (اے ایف پی)

سینیٹ الیکشن میں میری ذاتی دلچسپی صفر تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ ایک ہی فلم اس ملک میں کئی دھائیوں سے چل رہی ہے۔ ہر الیکشن کے بعد ہم مزید پستی کی طرف جا رہے ہیں۔

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

ہمارے فافن اور پلڈاٹ کے دوست تنکے پکڑ کر اس خوش فہمی میں ہیں کہ ڈوبنے سے بچا جا سکتا ہے اور امید لگا لیتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔ ان تحفظات کے باجود سب سے پہلے میں ان تمام اشخاص کو انفرادی طور پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جو سینیٹر بنے۔ اکیس کروڑ لوگوں کی نمائندگی کا دعوی یہ سینیٹ کرتی ہے جو ان سب کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ عوام کو انتہائی افسوس سے پھر بتا رہا ہوں یہ جمہوریہ ان کے لیے نہیں ہے۔ اب اس پر بات کرتے ہیں کے اشرافیہ میں سے کون جیتا اور کون ہارا۔

پچھلے سال مارچ 2020 میں جب پیپلز پارٹی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی اور سندھ میں بڑی مشکلات کا شکار تھی میں نے ایک کہنہ مشک صحافی دوست کو پیغام بھیجا کہ مجھے پیپلز پارٹی دوبارہ اٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کو بہت اچھے طریقے سے اپنے اقتدار کی دوڑ میں استعمال کیا۔

پیپلز پارٹی پچھلے کئی سال سے اسٹیبلشمنٹ کی شراکت دار ہے۔ اسی لیے آپ سے یہ کہا تھا کہ میچ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ زبیر عمر جو اسٹیبلشمنٹ کے خاص الخاص سمجھے جاتے ہیں انہوں  نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ حفیظ شیخ ہار گئے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں اسد عمر وزیر خزانہ ہوں گے۔

زرداری صاحب نے پچھلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ سینیٹ کا چیئرمین بنوایا تھا اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ناکام کروائی تو اب ان کی پارٹی کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ زرداری صاحب کی سیاست ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی شاندار مثال ہے۔ یہ عوام کو بھی ہڈی پھینکتے رہتے ہیں تاکہ وہ مصروف رہیں اور زیادہ شور نہ مچائیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب اقلیتی ووٹوں سے سینیٹر بنے اس لیے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں 169 ووٹ ملے جبکہ اکثریت 172 پر بنتی ہے۔ الیکشن سے 24 گھنٹے پہلے جو ویڈیو اور آڈیو آئی اس سے ان کی اخلاقی حیثیت مشکوک ہو گئی۔

ویڈیو ووٹ ضائع کرنے کے بارے میں تھی اور ریجیکٹڈ ووٹوں کی تعداد سات ہے جس کی وجہ سے ہی گیلانی صاحب کامیاب ہوئے۔ ہمیں یہ بھی  نہیں معلوم اس ویڈیو کے علاوہ اور کیا کچھ ہوا۔

ان دونوں پہلوں کو سامنے رکھیں تو گیلانی صاحب ایک سلیکٹڈ چیئرمین سینیٹ ہوں گے۔ جب تک سیدھی لکیر پر چلیں گے اس وقت تک عہدے پر رہیں گے۔ اس ملک میں وزیر اعظم کے بعد سلیکٹڈ چئیرمین سینیٹ (چاہے وہ صادق سنجرانی ہو یا یوسف رضا گیلانی)۔

وہ تمام لوگ جو اسٹیبلشمنٹ کو نامنظور تھے وہ یا تو ہار گئے یا ان کے کاغذات نامنظور ہو گئے۔ عوام کو کوئی یہ سمجھائے کے اسے جمہوریت کی جیت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کیا پارلیمان اور سینیٹ کو عوام کی نمائندہ کہا جا سکتا ہے؟ الیکشن صرف بیلٹ بکس کو نہیں کہتے۔ ٹکٹوں کا غیر جمہوری اجرا، پیسے کا بےتحاشا استعمال اور الیکشن کے دن دھاندلی یہ تمام عوامل اس موجودہ پارلیمان اور سینیٹ کو غیرعوامی اور غیرجمہوری بناتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان تعلقات میں سرد مہری برقرار ہے۔ پچھلے ستمبر سے لیے کر اب تک شین والے جیل میں اور نون والے حاوی تھے۔ اب مفاہمت پسند شین والے جیلوں سے باہر آ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے مسلم لیگ ن میں مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان کشمکش دوبارہ شروع ہو جائے گی۔

پنجاب میں ایک دفعہ پھر مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سیاسی پرندے پی ٹی آئی سے اڑ کر پیپلز پارٹی کی طرف جا سکتے ہیں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں۔ نواز شریف کا ووٹ نہیں ٹوٹا مگر وہ بٹ ضرور سکتا ہے۔

حکومتی پارٹی نے دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔ اس وقت قبل از وقت ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ووٹ میں حکومت کو کامیابی ہوگی یا ناکامی۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان نے ایک دفعہ پھر اس بات کی تصدیق کر دی کہ نالائق وزیر اعظم ہیں۔ خان صاحب کو صرف ایک کام بہت اچھا آتا ہے وہ ہے مارکیٹنگ اور وہ بھی اپنی ذات کی۔ عہدوں کا اتنا شوق ہے تو صدر بن جائیں۔ وزیر اعظم کسی ایسے آدمی کو بنائیں جو حکمرانی کر سکتا ہو۔

سب سے بڑی ہار پی ڈی ایم کی ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم کا بیانیہ یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ جانبدار ہے اور ایک نااہل حکومت کو عوام پر مسلط کیا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتایا تھا اس اتحاد کو دو آدمیوں پر غصہ ہے مگر ادارے کی سیاست میں شرکت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ضمنی الیکشنوں اور سینیٹ میں کامیابی کے بعد اب وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ادارہ ان کے خلاف جانبدار ہے۔ پی ڈی ایم بحیثیت تحریک اپنا جواز کھو چکی ہے۔ جس سلیکشن کے وہ خلاف تھے اب اسی کے تحت ان کا سینیٹ چیئرمین بنے گا۔ اب وہ کس بل بوتے پر لانگ مارچ کریں گے؟

عوام کے مسائل سے نہ پہلے ان کا تعلق تھا اور نہ اب ہے۔ یہ اقتدار کی دوڑ میں قائم ایک انتخابی اتحاد تھا۔ اب چونکہ اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں ہے تو یہ دونوں ایک ہی میان میں کیسے رہ سکتے ہیں۔

دونوں پارٹیوں کے حمایتی سوشل میڈیا پر پیغامات بھیج رہے ہیں انشا اللہ وزیر اعظم بلاول اور انشا اللہ وزیر اعظم مریم نواز۔ میں یہ نہیں کہہ رہا پی ڈی ایم نہیں رہے گئی بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ انتخابی اتحاد ہے اور آگے بھی یہی رہے گا اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک میثاق اقتدار کر لیں۔

عوام کے لیے پیغام یہی ہے کہ پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ آپس میں رشتہ دار ہیں۔ یہ جمہوریہ انہی کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ ان کے درمیان لڑائی صرف بٹوارے کی ہے۔ یہ سب عوام کو اپنا مزارا سمجھتے ہیں جن کا کام ہے ان کی خدمت۔

اگلے الیکشن کے لیے عوام کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکھٹا ہو کر اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ عوام کی آزادی اور بااختیار ہونے میں ہی اس ملک کا روشن مستقبل پنہاں ہے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ