’12 سال سے لاپتہ والد کی ہڈیوں کا جنازہ پڑھایا‘

شمالی وزیرستان کے شوکت نے 12 سال اپنے لاپتہ والد کو تلاش کیا، جن کی ہڈیاں دو دن قبل سڑک پر کام کرنے والے مزدوروں کو کھدائی کے دوران ملیں۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ہم نے 12 سال تک والد کو تلاش کیا لیکن آج تک ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کیسے اور کیوں لاپتہ ہوئے تھے۔ اس سے زیادہ اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اب والد ملے بھی ہیں تو صرف ان کی ہڈیاں، جن کا جنازہ ہم نے پڑھایا۔‘

یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے شوکت اللہ کا، جن کے والد محمد سلام  2008 میں لاپتہ ہوئے اور دو دن پہلے ہی شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن رزمک میں مزدوروں کو کھدائی کے دوران ان کی لاش اس وقت ملی جب وہ دوسلی گڑیوم سڑک پر تعمراتی کام میں مصروف تھے۔

میر علی کے پولیس اہلکار محمد اعظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مزدوروں کو یہ لاش کھدائی کے دوران ملی، جسے پولیس نے تحویل میں لے کر شناخت کے بعد اہل خانہ کے حوالے کر دیا۔ اس کیس کے متعلق مزید جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے شمالی وزیرستان کے پولیس سربراہ شفیع اللہ سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔

شوکت اللہ کے مطابق ان کے والد 2008 میں میر علی بازار کسی کام سے گئے اور اس وقت سے لاپتہ تھے، تب سے ہم ان کی تلاش میں لگے تھے۔ اسلام جس وقت لاپتہ ہوئے تو ان کی عمرتقریباً 70 برس تھی اور وہ ایک سرکاری سکول میں استاد تھے۔

شوکت نے بتایا، ’ہماری کسی کے ساتھ دشمنی ہے اور نہ کوئی تنازع لیکن ابھی تک ہمیں یہ پتہ نہیں چلا کہ والد کو کس وجہ سے لاپتہ یا اغوا کیا گیا۔‘

شوکت اللہ سے جب پوچھا گیا کہ مزدوروں کو جب صرف ہڈیاں ہی ملیں تو انھوں نے اپنے والد کو کیسے شناخت کیا؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جہاں سے ہڈیاں برآمد ہوئیں، وہیں سے ان کی  جیکٹ اور کپڑے بھی ملے، جس میں ان کا پرانا اور نیا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ، عطر کی بوتل، گھڑی اور کچھ سکے موجود تھے۔

’والد کی لاش مکمل طور پر ڈی کمپوز ہوگئی تھی، ان کے کپڑے اور جیکٹ میں ان کے ذاتی استعمال کی اشیا موجود تھیں جس کی وجہ سے ان کو آسانی سے شناخت کرلیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد اسلام ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بیٹے شوکت نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے اور اب نوکری کی تلاش میں ہیں۔ شوکت نے بتایا کہ والد کے لاپتہ ہونے کے بعد محکمہ تعلیم نے ان کا ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا، ساتھ میں ان کی والدہ کو پینشن ملتی ہے جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے۔

’ہم تو سمجھتے تھے کہ لاپتہ ہونے کے بعد اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ خاندان والوں کو جب کسی رشتہ دار کی لاش بھی مل جائے تو وہ غنیمت ہوتی ہے کیونکہ وہ لاش کا جنازہ پڑھا کر دل کو تسلی دے دیتے ہیں لیکن ہمیں تو اپنے والد کی صرف ہڈیاں ہی ملیں۔‘

شوکت سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس قت چونکہ قبائلی اضلاع خیبر پختونخوا میں ضم نہیں ہوئے تھے لہٰذا پولیس یا ایف آئی آر کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔

پاکستان میں لاپتہ افراد کے کیسز کو دیکھنے والے کمیشن، جو 2011 میں بنایا گیا تھا، کے جنوری 2021 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک چھ ہزار 900 افراد لاپتہ ہیں جس میں سے چار ہزار سے زائد کیس نمٹائے گئے جبکہ باقی پر کام جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان