افغان طالبان کے ہاتھوں میں ایک نیا ہتھیار

طالبان کی جانب سے اس نئے ہتھیار کے استعمال سے افغان سکیورٹی فورسز کو اب فضائی حملے کا بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے جو ان کے حوصلوں کو مزید پست کرنے کے لیے کافی ہے۔

(اے ایف پی)

گذشتہ سال کے اواخر میں رپورٹیں آئیں کہ افغانستان میں طالبان ایک نئے ہتھیار سے افغان فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔ وہ نیا ہتھیار ڈرون تھا۔ افغان حکام کے مطابق طالبان نے اب تک ڈرون کی مدد سے قندوز، لوگر، بلخ، پکتیا اور فریاب صوبوں میں حملے کیے ہیں۔

تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جنگجوؤں کی جانب سے ڈرون حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر نہ اس کی تردید کی نہ تصدیق۔

’میں سکیورٹی خدشات اور دیگر وجوہات کے باعث ڈرونز کے حوالے سے کسی قسم کا بیان نہیں دوں گا۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ طالبان نے فروری 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ تو پہلے کی ہے، نہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی نہیں کریں گے۔‘

افغان حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان افغان فورسز کے خلاف کمرشل ڈرون استعمال کر رہے ہیں جن کو تبدیل کر کے اس کے ساتھ ایک مارٹر یا چھوٹے بم لگا دیے جاتے ہیں اور وہ ڈرون سکیورٹی فورسز، فوجی تنصیبات یا سرکاری تنصیبات پر گرا دیا جاتا ہے۔

افغان حکام کے مطابق سات نومبر کو لوگر صوبے میں مسلح ڈرون سکیورٹی فورسز پر گرایا گیا اور اس کے بعد طالبان نے چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔

افغان طالبان کمرشل ڈرون نگرانی کے لیے تو استعمال کرتے رہے ہیں لیکن گذشتہ سال کے اواخر میں پہلی بار تھا کہ انھوں نے کمرشل ڈرونز میں ترمیم کر کے اس کے ساتھ کم شدت کے بم نصب کیے اور سکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ افغان سکیور ٹی فورسز کے پاس بھی امریکہ کے فراہم کردہ ڈرون ہیں اور یہ ڈرون کہیں زیادہ جدید ہیں۔ لیکن طالبان کی جانب سے ڈرونز کے استعمال سے افغان سکیورٹی فورسز کو اب فضائی حملے کا بھی خطرہ لاحق ہے جو ان کے پہلے ہی سے پست حوصلوں کو مزید پست کرنے کے لیے کافی ہیں۔

طالبان کی جانب سے ڈرونز کا استعمال ایسے وقت میں کیا گیا جب دوحہ امن معاہدے کے بعد پہلا انٹرا افغان مذاکرات کیے جا رہے تھے۔ ایسے وقت میں ڈرون حملوں کا مقصد یہ ہی ہو سکتا ہے کہ پیغام دیا جائے کہ وہ لڑنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ اپنی جنگ میں جدت لا رہے ہیں۔

ڈرون کا استعمال شدت پسند تنظیم داعش نے عراق میں کیا تھا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں وہی پیٹرن دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے بقول عراق میں داعش کی جانب سے شمالی عراق میں ڈرون حملوں سے امریکی فوج بھی خطرہ لاحق تھا۔

افغانستان کی سکیورٹی فورسز ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی چیک پوسٹس پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے لیے ڈرون حملے کے خلاف دفاع کرنا نہایت مشکل ہے۔

گذشتہ نومبر میں افغان انٹیلی جنس کے سربراہ احمد ضیا نے پارلیمنٹ میں تسلیم کیا کہ طالبان ترمیم شدہ ڈرونز استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’طالبان مارکیٹ میں بکنے والے سادے کمرشل ڈرون استعمال کر رہے ہیں جس میں کیمرہ بھی نصب ہوتا ہے۔ نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی چاہتی ہے کہ کیمرے سے لیس کمرشل ڈرونز کی درامد بن کی جائے۔‘

لیکن یہ ایک قدم ہے جس سے ڈرون حملے کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں لیکن ختم نہیں ہو پائیں گے۔ افغان حکومت کے لیے اہم بات تو یہ معلوم کرنے کی ہے کہ یہ ڈرون کہاں سے آ رہے ہیں اور ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس ایشو کو اٹھایا جائے۔

افغان طالبان تو ٹیکنالوجی کے ماہر نہیں ہیں کہ وہ کمرشل ڈرونز میں ترمیم کر کے مسلح ڈرون میں تبدیل کر سکیں۔ تو کیا القاعدہ ان کی مدد کر رہا ہے؟

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان کو غیر ملکی جنگجوؤں سے تربیت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم گذشتہ 20 سالوں سے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم سے پہلے افغان نے 20 سال جنگ لڑی۔ اسی وجہ سے ہم ہی ماسٹر مائنڈ ہیں اور ہم ہی تربیت دینے والے ہیں۔ ہمیں بیرونی سپورٹ، گائیڈنس، تربیت، سمت نہیں چاہیے۔ ہم اس حوالے سے خود کفیل ہیں۔‘

لیکن یہ بات متعدد رپورٹوں میں سامنے آ چکی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے قریبی روابط ابھی بھی ہیں۔

رواس سال جنوری میں امریکی محکمہ خزانہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا گذشتہ سال سے افغانستان میں القاعدہ کی پوزیشن مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور یہ تنظیم طالبان کے ہمراہ اور ان کی سرپرستی میں کارروائیاں کرتی ہے۔

’القاعدہ کے اپنے اتالیق اور مشیران کے نیٹ ورک کے باعث طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ القاعدہ طالبان کو مشورے، رہنمائی اور مالی امداد فراہم کرتی ہے۔‘

دوسری جانب گذشتہ سال مئی میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان اور القاعدہ کے رہنماؤں میں 2019 اور 2020 میں ملاقاتیں ہوئیں جن میں کارروائیوں کی منصوبہ بندی، تربیت اور القاعدہ کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے پر بات چیت ہوئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا، ’القاعدہ چھپ کر افغانستان کے 12 صوبوں میں متحرک ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے سینیئر رہنماؤں نے القاعدہ کے ساتھ دو ہزار جنگجوؤں پر مبنی ایک نئے مشترکہ مسلح یونٹ بنانے کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے مشرقی علاقوں میں نئے تربیتی کیمپ کے قیام پر بھی مشاورت ہوئی۔‘

اگرچہ ان ڈرون حملوں میں نقصان زیادہ نہیں ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہدف کو صحیح نشانہ بنانے کا تجربہ آنے سے یہی کم شدت کے مارٹر یا بم افغان سکیورٹی فورسز کا زیادہ نقصان کریں۔ اور عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں بڑے ڈرونز کا استعمال کیا جائے جن میں زیادہ شدت کے مارٹر یا بم نصب کیے جانے لگیں۔

لیکن ایسے وقت میں جب ایک جانب مذاکرات ہو رہے ہیں اور دوسری جانب طالبان نے حملوں میں تیزی کر دی ہے، سکیورٹی فورسز کا حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں۔

لیکن اصل مسئلہ ترمیم شدہ ڈرون حملوں میں نقصان زیادہ یا کم کا نہیں ہے بلکہ سکیورٹی فورسز پر نفسیاتی اثر کا ہے۔ یہ نہ ہو کہ صرف ڈرون کی آواز ہی سے اہلکار اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا