امریکہ، طالبان امن معاہدہ: القاعدہ کہاں کھڑی ہے؟

امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدے کی ایک اہم شرط طالبان کے لیے یہ ضمانت تھی کہ وہ افغان سرزمین کو دوبارہ امریکہ کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے یعنی القاعدہ غیرمتحرک ہو گی۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

دو روپوش رہنما: افغان طالبان  کے امیر ملا ہیبت اللہ اور القاعدہ کے ڈاکٹر  ایمن الظواہری (اے ایف پی)

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان فروری 2020 کے اوآخر میں طے پانے والے امن معاہدے کی ایک اہم شرط طالبان کی یہ ضمانت ہے کہ وہ افغان سرزمین کو دوبارہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اس کے تحت طالبان نہ تو القاعدہ جیسی تنظیموں کو پناہ دیں گے اور نہ ہی ان سے کوئی روابط رکھیں گے۔ اس ضمانت کے نتیجے میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج کے بتدریج مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے۔

اس طرح ایک بین الافغان سمجھوتے کے نتیجے میں طالبان کو افغانستان میں اس دفعہ دنیا کی حمایت سے اقتدار ملنے کا امکان ہے۔

القاعدہ کی موجودگی کے دو متضاد بیانیے

القاعدہ کے افغانستان میں وجود سے متعلق دو بیانیے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں رہا جو امریکہ کے جانے کے بعد پھر کسی طوفان کا سبب بن سکے۔ اس کے برعکس دوسرے بیانیے کے حامیوں کا خیال ہے کہ القاعدہ کی موجودہ خاموشی دراصل اس کی ممکنہ حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتی ہے جس سے شاید مستقبل میں وہ دوبارہ افغانستان، خطے اور عالمی سطح پر خطرہ بن جائے۔

 اس مضمون کا مقصد ان دونوں بیانیوں کا جائزہ لینا ہے کہ آیا افغانستان میں القاعدہ کی خاموشی اس سے درپیش خطرہ کی اختتام کی نوید ہے یا اس کی کسی خفیہ حکمت عملی کا حصہ؟

وہ تمام عناصر جو افغانستان سے امریکہ کے جلد انخلا اور طالبان کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں یا فقط اول الذکر کے خواہاں ہیں وہ سب امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کو ہر صورت میں مکمل طور پر عملی شکل میں نافذ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ خطے میں القاعدہ کے وجود کو قصہ پارینہ ثابت کیا جا سکے تاکہ امریکی عوام اور مقتدر سیاسی حلقے القاعدہ کی خطرے کے خوف کی وجہ سے اس معاہدہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کر سکیں۔

ان عناصر میں سرفہرست افغان طالبان، ان کے حامی افغان عوام اور بعض خارجی قوتیں ہیں۔ اس میں طالبان کے وہ افغان ناقدین بھی شامل ہیں جو طالبان کے حامی تو نہیں لیکن وہ ملک میں جاری خون خرابے کی ذمہ داری غیرملکی افواج کی موجودگی کو سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوج جلد از جلد یہاں سے نکل جائے۔

اس کا مخالف بیانیہ ان افراد کا ہے جو افغان طالبان کے ساتھ ہر قسم کے سیاسی سمجھوتے کے مخالف ہیں اور یا جن کا یقین ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں شاید ملک دوبارہ عسکریت پسندی کا مرکز بن کر خطے اور مغربی ممالک کے لیے شدید خطرہ بن جائے گا۔

اس بیانیے کے حامیوں میں سرفہرست افغان حکومت، طالبان مخالف افغان سیاسی قوتیں اور القاعدہ پر گہری نظر رکھنے والے بعض سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ کار شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ القاعدہ اور طالبان دونوں کی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش ہے کہ القاعدہ کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تاکہ امن معاہدے کی راہ میں ہر ممکنہ رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔ طالبان اور اس کے حامی ہر اس فرد کو امن دشمن سمجھتے ہیں جو افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔

افغانستان میں القاعدہ کی موجودیت کے متعلق دعووں میں سب سے اہم اور قابل توجہ دعویٰ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مبصر ٹیم برائے القاعدہ کی شائع ہونے والی رپورٹیں ہیں جو وقتاً فوقتاً اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے درمیان افغانستان میں اب بھی مضبوط روابط موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے سب سے حالیہ دعویٰ اس ٹیم کے سربراہ ایڈمنڈ فٹن براؤن کا ہے جو انہوں نے چند دن قبل افغانستان کے مستقبل کے ٖحوالے سے منعقدہ ایک آن لائن سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ براؤن کا کہنا ہے کہ القاعدہ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے طالبان نے امن مذاکرات کے حوالے سے مسلسل ان کی قیادت خصوصاً ایمن الظواہری کے ساتھ رابطہ قائم رکھا اور ان کے ساتھ مندرجات پر باہمی مشورے کرتے رہے ہیں۔ براؤن کا مزید کہنا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کی قیادت کو غیررسمی ضمانتیں بھی دی ہیں کہ امریکہ سے معاہدے کی صورت میں ان کے باہمی تاریخی تعلق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

دوسری طرف طالبان اور ان کے حامی اقوام متحدہ کے ان دعووں کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اسے امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ ناکام بنانے کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہیں۔

اگر غیرجانبدارانہ زاویے سے نائن الیون کے بعد سے اس اب تک  طالبان اور القاعدہ کے تعلق کی حکمت عملیوں کو دیکھا جائے تو یہ دعوے حقیقت سے دور نہیں سمجھے جا سکتے۔

 القاعدہ نے ہمیشہ طالبان سے اپنے تعلقات کا ببانگ دہل اعتراف کیا ہے۔ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سمیت القاعدہ کی تمام اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ نہ صرف ملا محمد عمر اور باقی طالبان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا بلکہ بارہا اپنی تنظیم کو طالبان کا ایک خصوصی دستہ تک قرار دیا ہے۔ ملا محمد عمر کے بعد ایمن الظواہری نے ان کے جانشینوں ملا اختر محمد منصور اور ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے لیے ان ہی الفاظ میں حمایت و اطاعت کا تکرار کیا جو اسامہ بن لادن نائن الیون کے بعد سے متواتر ملا عمر کے لیے کہتے آ رہے تھے۔

اس سلسلہ میں سب سے دلچسپ بیان القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری کا ہے جو انہوں نے وزیرستان سے القاعد ہ کی بیدخلی کے بعد جاری کیا تھا۔ پاکستانی فوج نے امریکہ کی حمایت سے 2015 میں القاعدہ کو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ تک ان کے مضبوط ٹھکانے وزیرستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔

ایمن الظواہری کا کہنا ہے کہ طالبان نے القاعدہ قیادت کو وزیرستان سے نہ صرف بحفاظت نکلنے میں مدد کی بلکہ افغانستان کے اندر انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کیں۔

ایمن الظواہری کے ان دعووں کو القاعدہ کا اپنے آپ کو طالبان سے نتھی کرنے کا محض ایک پراپیگینڈا قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مستند ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 2015 کے بعد سے مرکزی القاعدہ کے کئی سینیئر رہنما طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے افغان علاقوں میں امریکی حملوں میں مارے گئے۔ ان میں سرفہرست حمزہ بن لادن اور شیخ ابو خلیل مدنی شامل ہیں۔

القاعدہ کی قیادت برسوں سے حمزہ کو مستقبل کے لیے تنظیم کے ایک سربراہ بننے کی تربیت دے رہی تھی جبکہ سوڈانی النسل ابو خلیل مدنی خطے میں القاعدہ کے سب سے پرانے اور ایمن الظواہری کے بعد اہم رہنما تھے۔ انہیں ایمن الظواہری کا نائب بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اس کی ایک تازہ مثال کچھ روز قبل صوبہ غزنی کے ضلع اندڑ میں القاعدہ کے نشریاتی ادارے ’السحاب‘ کے سربراہ شیخ حسام عبدالرؤف کا مارا جانا ہے جو وہاں بظاہر طالبان کی مقامی قیادت کی پناہ میں تھے۔

اس کے علاوہ مستند شواہد بتاتے ہیں کہ القاعدہ کی جنوب ایشیائی شاخ ’القاعدہ برصغیر‘ کے امیر مولانا عاصم عمر سمیت ان کے بھی کئی سینیئر رہنما طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں طالبان کی مقامی قیادت کے ساتھ مارے گئے ہیں۔ اگرچہ امریکی اور افغان ذرائع القاعدہ کے ان رہنماؤں کے مارے جانے کی تصدیق کرتے ہیں لیکن القاعدہ اور طالبان نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو ان کا ایک خلاف معمول عمل ہے۔

القاعدہ کی طرح طالبان نے بھی ہمیشہ ان کے ساتھ اپنے تعلق کا برملا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے القاعدہ کی وجہ سے ان کی حکومت کے خاتمے اور درپیش تکالیف اور نقصانات پر غم و غصے کی بجائے فخر کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس بات کا ہمیشہ اعادہ بھی کرتے ہیں کہ اگر مستقبل میں دوبارہ ضرورت پڑی تو وہ پھر ایسی قربانیوں سے اجتناب نہیں کریں گے۔ اس میں سرفہرست خلیفہ سراج الدین حقانی، ملا داد اللہ، استاد یاسر، ملا حسن روحانی، ملا سنگین زدران اور دیگر رہنماؤں کے وہ بیانات ہیں جن کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔

طالبان کے القاعدہ سے اپنے اس ایثار پر مبنی تعلق کو ظاہر کرنے کی پالیسی میں 2011 کے بعد سے ایک محتاط تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے جب سے انہوں نے امریکہ سے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ امریکہ کا شروع سے یہ دوٹوک موقف رہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کے لیے طالبان کو القاعدہ سے قطع تعلق کا برملا اظہار کرنا پڑے گا۔ طالبان قیادت نے امریکہ کے ساتھ پسِ پردہ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے پہلے کی طرح کھلے عام القاعدہ کے ساتھ اپنی والہانہ الفتوں کے اقرار پر خاموشی اختیار کی ہے یا اس کا ذومعنی الفاظ میں جواب دیا ہے  لیکن امریکہ کی شدید خواہش کے باوجود آج تک انہوں نے کبھی بھی القاعدہ کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔

اسامہ بن لادن کے خفیہ مکتوبات سے پتہ چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے طالبان اور القاعدہ کے درمیان ان الفتوں کا اظہار محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہا بلکہ پسِ پردہ بھی ان کی قیادتوں کا آپس میں مسلسلہ رابطہ رہا ہے۔ وہ مختلف اہم امور میں ایک دوسرے سے مشورے کرتے آئے ہیں۔ ان مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ نائن الیون سے قبل کی طرح طالبان کو بھاری مالی معاونت بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ القاعدہ کے نشریاتی اداروں کے مواد ان ثبوتوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ان کے جنگجو طالبان کی زیر قیادت افغانستان کے مختلف صوبوں میں لڑتے رہے ہیں۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ طالبان نے امریکہ سے خفیہ مذاکرات کے آغاز سے ہی القاعدہ قیادت کو اس کے متعلق آگاہ کر رکھا تھا۔ افغان طالبان کے سیاسی کمیٹی کے سابق سربراہ طیب آغا جنہوں نے 2010 میں امریکہ کے ساتھ خفیہ گفت و شنید کا آغاز کیا تھا، اسامہ بن لادن سے مسلسل رابطہ میں تھے۔ طیب آغا نے اسامہ کی ہلاکت کے محض دو ہفتے قبل بھی انہیں ایک اہم مکتوب تحریر کیا تھا۔

 اس کے علاوہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اپنے قتل سے کچھ عرصہ قبل اسامہ کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ شاید مذاکراتی مرحلوں میں طالبان کے بعض رہنما وقتی طور پر القاعدہ کے حوالہ سے امریکی دباؤ برداشت نہ کر سکیں جس سے نمٹنے کے لیے انہوں نے ’پلان بی‘ بھی تجویز کر رکھا تھا کہ اس صورت میں القاعدہ کی قیادت افغانستان سے باہر پاکستان وغیرہ میں روپوش ہو جائے گی جبکہ ان کے ارکان افغانستان میں خفیہ طور پر پھیل جائیں گے۔ مگر ایمن الظواہری کے بیان اور حالیہ برسوں میں افغانستان میں القاعدہ کے سینیئر ترین رہنماؤں کا مارا جانا بتاتا ہے کہ شاید القاعدہ کو اپنے اس پلان بی کو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی ہو گی۔

افغانستان میں خاموشی برقرار رکھنے کی حکمت عملی کے تناظر میں ایک اہم نکتہ 2012 میں القاعدہ کا افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کے لیے علاقائی شاخ ’القاعدہ برصغیر‘ کا قیام بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے القاعدہ نے مقامی قیادت کو سامنے لا کر اپنی مرکزی رہنماؤں کو بظاہر خطہ کے معاملات سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔ برصغیر شاخ کی مدد سے القاعدہ نے اس اہم خطے میں اپنے وجود کو امریکہ اور اس کے حامی عالمی قوتوں کے لیے بظاہر کم خطرناک شکل میں قائم رکھ کر طالبان کی اس مشکل کو کم کر دیا ہے جس کا اندیشہ اسامہ نے اپنی ہلاکت سے چند ماہ قبل کے ایک مکتوب میں ظاہر کیا تھا۔

القاعدہ برصغیر نے اس کی دوسری شاخوں کے برعکس بین الاقوامی دہشت گردی کی بجائے خطے میں دہائیوں سے موجود مسئلہ کشمیر میں اپنی مکمل دلچسپی کا ہمیشہ اظہار کیا ہے۔ فروری 2020 میں امریکہ طالبان امن معاہدے کے فورا بعد واشگاف الفاظ میں یہ اعلان بھی کیا کہ اب ان کی تمام تر توجہ افغانستان کی بجائے کشمیر کی آزادی پر ہو گی۔

اس بیان کو دراصل افغانستان میں اپنی موجودگی سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے القاعدہ کی پراپیگنڈا حکمت عملی کا حصہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ القاعدہ نے ہمیشہ کشمیر میں عملی مداخلت سے دوری برقرار رکھی ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں تنظیم نے وہاں اپنی موجودگی کا محض علامتی بھرم قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق