'بچپن سے وکالت کا شوق تھا لیکن  پورا نہ ہو سکا'

پشاور میں پولیس کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے  والے19 سالہ طالب علم مبشر احمد کے بھائی ارشد اللہ کے مطابق مبشر ایک تعلیم یافتہ طالب علم تھے اور تقریباً سات سال سے پشاور میں تعلیم کی خاطر مقیم تھے۔

(تصویر: ارشد اللہ)

'بچپن سے ہم ایک سکول میں پڑھتے تھے، مبشر ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ وکیل بننا چاہتے ہیں جب کہ میں انجینئر بننے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن مبشر وکیل بننے کی امید  لے  کر اس دنیا سے چلے گئے۔'

یہ کہنا تھا  پشاور میں پولیس کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے  والے19 سالہ طالب علم مبشر احمد کے بھائی ارشد اللہ کا جو فون پر انڈپینڈنٹ اردو سےبات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ارشد کہتے ہیں ’مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا، مبشر ایک تعلیم یافتہ طالب علم تھے اور تقریباً سات سالوں سے پشاور میں تعلیم کی خاطر رہ رہے تھے لیکن پھر بھی ان کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا گیا۔‘

ارشد اللہ نے بتایا کہ ان کے بھائی پشاور میں وکالت میں داخلہ لینے کے لیے ٹیسٹ دینے کی غرض سے اپنے دوستوں کے ساتھ گئے تھے اور بچپن ہی سے وکالت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

انھوں نے بتایا 'مبشر خوش تھا اور مجھے ٹیسٹ کے بعد بتایا تھا کہ ٹیسٹ اچھا ہوا ہے اور امید ظاہر کی کہ داخلہ مل جائے گا لیکن پولیس  اہلکاروں نے اس کی اس خواہش کا گلا دبا دیا اور اسے گولیاں مار کر قتل کردیا۔'

ارشد خود سول انجینئرنگ کے طالب علم ہیں اور ان کے باقی چار بھائی بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد تعلیم  سے ان کا دل بالکل بھر گیا ہے۔ ’کیوں کہ ہم تو چاہتے تھے کہ تعلیم حاصل کر کے اس ملک کے لیے کچھ کر سکتے لیکن اس کے جواب میں ہمیں گولیاں ملتی ہیں۔‘

'اب میں کس سے پوچھوں کہ میرے بھائی کو کس جرم میں قتل کیا گیا؟ ہماری تو کسی کے ساتھ دشمنی ہے نہ کوئی اور تنازع، تو کون مجھے اس سوال کا جواب دے گا کہ میرے بھائی کا آخر قصور کیا تھا؟'

انھوں نے حکومت پاکستان اور چیف جسٹس سے اپیل کرے ہوئے کہا کہ خدارا ایسے واقعات کی روک تھام کی جائے تاکہ مزید ماؤں کی گودیں نہ اجڑیں  کیونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ پولیس کی جانب سے بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟

پولیس کے دو اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر  طالب علم پر فائرنگ  کا واقعہ پشاور کے تھانہ فقیر آباد کی حدود میں پیش آیا۔

واقعے کے درج مقدمے میں  مقتول مبشر کے دوست ضیا اللہ جو واقعے کے دوران ان کے ساتھ موجود تھے، نے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ وہ پشاور صدر میں واقع چائے  ہوٹل میں چائے پینے کے بعد دلزاک روڈ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایف آئی آر  کے مطابق مبشر نے سٹی ریلوے سٹیشن تھانے کے قریب گاڑی روک دی کیونکہ مبشر رفع حاجت کے لیے اترنا چاہتے تھے اور  بعد میں واپس گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے 'پیشاب کرنے کے بعد  مبشر جب گاڑی میں بیٹھ گئے تو ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ اچانک فائرنگ کی آواز آئی اور ہم گاڑی سے اتر گئے۔ اسی اثنا میں دو پولیس اہلکار گاڑی کی طر ف آ گئے جن کے پاس اسلحہ موجود تھا۔'

مبشر کے دوست کے مطابق جب پولیس اہلکار گاڑی کی طرف آئے اور مبشر کو زخمی حالت میں دیکھا تو انھوں نے فوراً ہسپتال منتقل کرنے کا کہا اور ہم فوراً انہیں ہسپتال لے بھی گئے لیکن  وہ ہسپتال میں انتقال کر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مبشر کے دوست ضیااللہ نے بتایا کہ ان کو پولیس کی جانب سے روکنے کا نہ کوئی اشارہ دیا گیا تھا اور نہ گاڑی میں کچھ موجود تھا۔ کیوں کہ گاڑی واقعے کے بعد پولیس کی  تحویل میں ہے اور وہ اس کو چیک کر سکتے ہیں۔

پشاور پولیس کے مطابق  واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کیپیٹل سٹی پولیس پشاور دفتر سے جاری  پریس ریلیز  میں لکھا گیا ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں خواہ تعلق کسی بھی محکمے سے ہو۔

پریس ریلیز کے مطابق سی سی پی او پشاور احسن عباس نے واقعے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ملوث رائیڈرز پولیس اہلکاران کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کو عدالت میں پیش کر کے تین روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔

گرفتار پولیس اہلکاران  نے پولیس کو  بیان دیتے ہوئے بتایا کہ مقتول مبشر اور ان کے دوستوں نے گاڑی میں تیز آواز سے میوزک لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ انہیں  نہیں سن پائے اور بار بار اشارے اور ٹارچ سے روشنی دکھانے کے باوجود انھوں نے گاڑی نہ رکی تو مجبوری میں انتہائی اقدام اٹھانا پڑا جو کہ غلط تھا۔

حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں اسامہ نامی ایک طالب علم کو اسلام آباد پولیس نے گاڑی نہ روکنے کی وجہ سے فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان