جب صدام کے گرائے جانے والے مجسمے پہ عراقی پرچم ڈالا گیا

عراق اور افغانستان میں برطانوی افواج کی موجودگی اور چند متنازع معاملات کا احاطہ کرتی ایک کتاب کا جائزہ۔

(اے ایف پی)

مارچ 2006 میں، میں اور میرے ایک ساتھی افغانستان کے صوبہ ہلمند سے دارالحکومت کابل روانہ ہو رہے تھے۔ ہم نے ہلمند میں برطانوی فورسز کی ناگزیر آمد کی کوریج کرتے ہوئے وقت گزارا۔ برطانوی فورسز ایک ایسے مشن پر آئی تھیں، جس نے دو سال سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہنا تھا۔ 

جب ہم ہیلی کاپٹر پر سوار ہو رہے تھے تو لیفٹیننٹ کرنل ہنری ورسلی نے پوچھا: ’کیا آپ لوگ کابل میں واقع برطانوی سفارت خانے جا رہے ہیں؟ اگر آپ وہاں جا رہے ہیں تو کیا آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ پوست کی فصل تلف کرنے کے بارے میں ملکہ کی پالیسی کیا ہے؟ کیونکہ کسی نے یہاں ہمیں یہ نہیں بتایا۔‘ 

ہنری، صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں پروونشل ری کنسٹرکشن ٹیم (پی آر ٹی) بیس میں ایک چھوٹے برطانوی فوجی گروپ کے انچارج تھے۔ یہ اڈہ امریکیوں کی جانب سے برطانیہ کے حوالے کیا جا رہا تھا تاکہ اسے ٹاسک فورس کا ہیڈ کوارٹر بنایا جاسکے۔ ہنری کی بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ مقامی آبادی کو قائل کریں کہ ان کی زمین پر آنے والی غیرملکی فوج ایک دوست کے طور پر آئے گی، جس کے پاس امداد ہوگی اور ترقی ہوگی۔  

ہنری اور ان کے نائب میجر شان پنڈری ہمیں پتلی چادر والی لینڈ روور گاڑیوں میں سوار کرکے گاؤں کی شوریٰ کے پاس لے گئے۔ فوجیوں نے خطرناک دکھائی نہ دینے کی کوشش میں بلٹ پروف جیکٹیں اور ہیلمٹ نہیں پہن رکھے تھے۔ ٹھیک اسی وقت نجی امریکی سکیورٹی کمپنی ’ڈائن کورپ‘ کی ملک میں آمد شروع ہوگئی تاکہ پوست کی فصل کو تلف کیا جاسکے۔ 

ہنری نے گاؤں کے بڑوں کی شکایات سنیں کہ کاشت کاروں کو ان کی روٹی روزی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کاشت کاروں کی ناراضگی سے طالبان کے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے انتباہ سنے اور یہ سبب سننے کے بعد انہوں نے پوست کی فصل تلف کرنے کا کام عارضی طور پر معطل کرنے کے طریقوں کے حوالے سے لندن سے رہنمائی طلب کی۔ 

انہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ ڈائن کورپ نے پوست کے کھیت تباہ کرنے شروع کر دیے۔ کاشت کاروں نے معاوضے کا انتظار کیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔جلد ہی کنٹریکٹرز نے اپنے ساتھی امریکیوں کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے آرپی ٹی بیس آنا شروع کر دیا۔ 

ایک شام، جب ہم وہاں موجود تھے، دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک کار نے ان کا پیچھا کیا اور بیس کے مرکزی دروازے سے ٹکرا گئی۔یہ لشکر گاہ میں پہلا خودکش حملہ تھا۔ 

سپیشل ایئر سروس کے سابق افسر ہنری ایک دلیر، پرکشش اور نرم مزاج شخص تھے۔وہ 2016 میں اس وقت چل بسے جب وہ برطانوی مہم جو سر ارنسٹ شاکلٹن کا قطب جنوبی کا سفر مکمل کر کے تاریخ رقم والے تھے۔وہ زخمی مرد اور خواتین فوجیوں کے لیے ’اینڈیوور‘ فنڈ کے تحت رقم اکٹھی کر رہے تھے۔ 

درمیانے برسوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہم ہلمند کے ان ابتدائی دنوں میں کیے گئے صحیح یا غلط کاموں کا ذکر کریں گے۔ اپریل 2003 میں جب عراق کے دارالحکومت بغداد میں سابق صدر صدام حسین کا مجسمہ گرایا جا رہا تھا تو میں نے خود کو امریکی میرینز کے کرنل برائن میکوئے کے قریب کھڑا پایا، جنہوں نے شہر میں داخل ہونے والے امریکی فوجیوں کی صفوں میں ایک کی قیادت کی تھی۔ 

جب میکوئے نے دیکھا کہ امریکی پرچم کو صدام کے چہرے پر ڈالا جا رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا اس کی جگہ عراقی پرچم ڈالا جائے۔  اس بات پرکچھ لوگوں نے احتجاج کیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مخصوص امریکی پرچم وہ پرچم تھا جو نائن الیون والے دن ٹوئن ٹاور پر لہرا رہا تھا۔ اس پرچم کو اسی دن کے لیے محفوظ رکھا گیا۔کرنل نے ردعمل میں کہاکہ'یہ سب بکواس ہے۔پرچم کو دیکھو یہ بالکل نیا ہے۔'

عراقی پرچم تلاش کر کے اسے امریکی پرچم کی جگہ صدام کے چہرے پر ڈال دیا گیا لیکن سرتوڑ کوششوں کے باجود 30 فٹ بلند مجسمہ گرایا نہ جا سکا۔آخرکار وہ ہرکولیس لائے۔یہ وہ گاڑی ہے جو 75 ٹن وزنی خراب ٹینک کو کھینچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہرکولیس نے اوپر سے نیچے تک مجسمہ کو توڑ دیا اور بالآخر وہ زمین پر گر گیا ۔ امریکیوں نے ٹیلی ویژن پر تصاویر دکھائی اور اس عمل کو فتح کی علامت کے طورپر پیش کیا۔ 

 میں نے میکوئے سے پوچھا کہ وہ اوران کے میرینز کب تک بغدادمیں رہیں گے؟انہوں نے جواب دیا؛  'جتنی جلدی ہو سکے ہمیں یہاں سے جانا چاہیے۔ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔مزید یہاں رہنا مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔'

چند روز بعد صدام کے شہر(جو ، اب  صدر شہر ہے)سے ہجوم بغداد آیا تاکہ سرکاری عمارتوں، دفاتر اور گھروں کو لوٹ اور جلا سکے۔میرینز سمیت امریکی فوج کھڑے ہو کر دیکھتی رہی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ لاقانونیت کو روک کیوں رہے تھے؟تو انہوں نے کہا کہ'گھر'سے مداخلت نہ کرنے کا حکم تھا۔

اسے انتظامیہ کے خلاف عوامی تحریک کے طور پر دیکھا جانا تھا۔اپارٹمنٹس پر مشتمل ایک بلاک سے پردے،صوفہ اور چھتریاں لے جانے والے چھ افراد کی جانب اشارہ کرتے اور سرکو ہلاتے ہوئے نوجوان کپتان نے کہاکہ'وہ یقینی طور پر محب وطن انقلابی دکھائی دیتے ہیں۔ کیا وہ دکھائی نہیں دیتے؟' 

 یہ کہانیوں جیسے مثالیں ہیں کہ لڑائیوں میں بھیجنے جانے والی برطانوی اور امریکی فورسز کو ان کی حکومتوں کی جانب سے کسی منصوبہ بندی کے فقدان سے کس طرح نمٹنا اور جنگوں کے جواز کو درست ثابت کرتے سیاست دانوں کے جعلی اور خودغرضی پر مبنی بیانیوں پر کس طرح پورا اترنا تھا۔ 

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عراق اور افغان جنگوں میں شرمناک شکست میں پیچھے وطن میں ہونے والی سیاست نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایک نئی کتاب ’دا چینجنگ آف دی گارڈ: برٹش آرمی سنس نائن الیون‘بنیادی طور پر فوجی ناکامیوں پر روشنی ڈالتی ہے جس میں شکست کا الزام سینئر کمانڈروں پر ڈالا گیا ہے۔ 

کتاب کے مصنف سائمن ایکم نے یونیورسٹی سے پہلے فوج میں ایک سال کا وقت گزارا تھا لیکن ان کے پاس فورسز میں خدمت کا دوسرا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے اور اس طرح ان کو اندورنی ذرائع سمجھنا غلط ہو گا۔

تقریبا 700 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جذبات سے بھرپور ہے جس کو لکھنے میں مصنف کو پانچ سال لگے۔ یہ کتاب زیادہ تر مسلح افواج کے اہلکاروں، کچھ سفارت کاروں اور صحافیوں کے 560 انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس سے تنازعات پیدا ہوئے جس نے رائے عامہ کو تقسیم کیا لیکن اہم موضوعات کے حامل کسی بھی سنجیدہ کام کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ ایک باوقار ادارے کے ماضی، حال اور مستقبل کے تجزیے کے لیے یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ 

 یہ طائفہ زیادہ تر برطانوی فنکاروں پر مشتمل ہے جس میں کچھ امریکیوں کے ساتھ ساتھ چند عراقیوں اور افغانیوں کی بھی شمولیت رہی ہے. مسٔلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب صورت حال کی بڑی منظر کشی کی بات کی جاتی ہے۔ دونوں جنگوں میں برطانیہ کی شمولیت کم پیمانے پر تھی اور ان کی کارروائی یا غیر عملی بہت سے معاملات میں امریکی پالیسی سے متاثر تھی۔ افغانستان اور عراق کی اندورنی سیاست نے مغربی فوجی تدبیروں کو متاثر کیا کیونکہ تنازعات برسوں تک پھیلے رہے ہیں اور مغرب نے ان غیر مقبول جنگوں سے نکلنے کی حکمت عملی کی تلاش شروع کر دی۔ 

کتاب کے ابتدائی حصے میں برطانوی سلطنت کے زوال پذیر دنوں میں فوجیوں کے حوالے دیے گئے ہیں جیسے رابرٹ گریز کی یادداشت  ‘Goodbye to All That and Siegfried Sassoon’s Memoirs of an Infantry Officer ‘۔ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عراق اور افغانستان کی مہمات چلنے کے بعد سے فوج کے کلچر میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے۔ 

مصنف کے خیال میں فوج درجہ بندی میں بٹی ہوئی تھی جس میں پولو کھیلنے والے افسران پول راجر شیمپین پیتے اور نچلے درجے والے سپاہی عام شراب۔ کچھ یونٹ، جیسے پیراشوٹ رجمنٹ، حد سے زیادہ جارحانہ تھے جبکہ بہت سے سابق ایس اے ایس اہلکار جنہوں نے ان کے کارناموں کے بارے میں لکھا تھا وہ ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ 

کتاب میں عراق اور خاص طور پر بصرہ میں ہونے والے واقعات پر  زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’چارج آف دا نائٹس‘ کے نام سے ہونے والے ایک آپریشن کو برطانوی ساکھ کے لیے  Dien Bien Phu کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کا عراقی سیاست سے بہت زیادہ تعلق تھا۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ نے جنوب میں عراقی کمانڈر جنرل موہن الفوریجی کے ساتھ مل کر شیعہ ملیشیا کو ختم کرنے کے لیے ایک آپریشن کا منصوبہ بنایا جو عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے حاصل کر لیا اور امریکی اور عراقی فوج نے اسے انجام دیا تھا۔ ابتدائی طور برطانیہ کو اس آپریشن سے خارج کردیا گیا تھا۔ 

ایکم کے مطابق بصرہ میں جو کچھ ہوا وہ نادر کے آخری ایام کے بارے میں ایک کہانی تھی جو کچھ مبصرین 1956 میں سوئز کے بعد برطانوی فوج کی تباہی کے طور پر بیان کریں گے۔ برطانوی فوج کی جانب سے 2003 میں جنگ میں حصہ لینے کے بعد بصرہ کے واقعات سے ثابت ہوا کہ آپ ملک سے باہر صرف رائفل کے ساتھ اچھا کام نہیں کر سکتے۔ 

ایکم نے اس وقت کی رپورٹس کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا بصرہ میں برطانوی فوج کی کاررکردگی پر اعتماد ختم ہوگیا تھا۔ وہ امریکی میجر جنرل جارج فلین اور برطانوی بریگیڈیئر جولین فری کے مابین ایک گفتگو (جس کا مواد متنازع ہے) کا حوالہ دیتے ہیں جس میں امریکی افسر برطانوی صلاحیتوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ 

فری کی یادداشت کے مطابق فلین نے کہا: ’مجھے یہاں بھیجا گیا ہے تاکہ اس بات کا یقین کیا جاسکے کہ اوورواچ دوبارہ ناکام نہ ہو اوورواچ حالات کی آگاہی سے متعلق ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔‘ 

وہاں موجود ایک اور برطانوی افسر لیفٹیننٹ کرنل پال ہرکنیس نے ریمارکس دیئے کہ ’یہ انتہائی تذلیل اور شرمندگی کا لمحہ تھا۔‘ 

اس وقت یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ امریکیوں اور برطانیہ کی ہر چیز پر نگاہ نہیں تھی۔ برطانیہ کی یہ باقاعدگی سے عادت رہی ہے کہ وہ ’شمالی آئرلینڈ کے تجربے‘ سے حاصل کردہ بصیرت کا ذکر کرتے ہیں اور ڈیڑھ صدی قبل ٹیمپلر کی ملایا مہم نے کچھ امریکیوں میں اکتاہت پیدا کر دی۔ اسی وقت یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ برطانیہ جنوب میں شیعہ ملیشیا پر قابو پانے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے وہ انہوں نے ان علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔ 

 لیکن اس کے علاوہ برطانیہ کے بھی کچھ خدشات تھے خاص طور پر اس وقت ان کے درمیان تعلقات بدمزہ ہو گئے جب عراق پر قبضے کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے امریکیوں کی جانب سے جارحیت کا مظاہرہ دیکھا۔ بغداد کے وحشیانہ تشدد کے دوران ہم نے گزارے گئے توسیعی عرصے میں اس کی مثالیں دیکھی ہیں۔ یہی وہ کلچر تھا جس نے ابوغریب جیل جیسی خوفناک زیادتیوں کو جنم دیا۔ 

اس کتاب میں برطانوی اور امریکی سیاسی ناکامیوں کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کو عراق اور افغان جنگوں میں گھسنا پڑا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا جب کہ وہاں سلامتی اور استحکام قائم کرنا چاہئے تھا لیکن اس کی بجائے ان وسائل کو عراق میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عراق پر حملہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے جھوٹ بھی بولا گیا۔ اس کے علاوہ پال برمر کی جانب سے عراق میں حملے کے بعد کی انتظامیہ کی سربراہی سے امریکی جنرل جے گارنر اور برطانوی میجر جنرل ٹم کراس کی تبدیلی ان کی تباہ کن de-Baathification پالیسی کا نتیجہ تھی۔ 

 کیا برطانوی فوجی کمانڈر سیاستدانوں سے سوال کرنے اور انہیں خبردار کرنے کے لیے اور کچھ کرسکتے تھے؟ چیف آف ڈیفنس سٹاف لارڈ بوائس نے ٹونی بلیئر حکومت سے یہ یقین دہانی کرانے کا مطالبہ کیا کہ عراق پر حملہ جائز اور قانونی تھا۔ حالات کے مطابق اٹارنی جنرل لارڈ گولڈسمتھ کا یہ مشورہ، کہ یہ حملہ قانونی طور جائز تھا، ابھی تک تلخ تنازع ہی ہے۔  

ایک اور جنگ کے موقع پر جب ڈیوڈ کیمرون نے لیبیا میں مداخلت کا مطالبہ کیا تو چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل سر ڈیوڈ رچرڈز نے وزیر اعظم کو احتیاط برتنے اور طویل مدتی کے لیے حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ جب رچرڈز نے عوامی سطح پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو کیمرون کا جواب تھا: ’میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ لڑائی کریں، میں بات چیت کروں گا۔‘ 

ایکم نے ’چینجنگ آف دی گارڈ‘ کے اختتام پر لکھا کہ فوج نے اس سب سے سبق سیکھا تھا۔ 

انہوں نے کہا: ’تقریبا ہر معاملے میں وہ ادارہ جو 2014 کے آخر میں کیمپ بیسشن سے نکلا تھا، اس فوج کے مقابلے میں جو 2003 میں کویت میں کھڑی تھی، زیادہ پیشہ ور، بہتر قیادت، کم نسل اور جنس پرست اور کم شراب پینے والی اور کہیں بہتر اسلحے سے لیس تھی۔‘ 

 لیکن جب فوج اگلی جنگ میں مداخلت کرے گی تو برطانیہ کے پاس کسی حکومت کو بے دخل کرنے سے آگے اور کیا منصوبہ ہوگا؟ کیا اس کا مقصد دوسرے ملکوں میں جمہوریت اور سول سوسائٹی کو فروغ دینا ہو گا؟ یا پھر ایسی کوئی جنگ تجارتی مفادات کے حصول کے لیے لڑی جائے گی؟

عراق، افغانستان یا لیبیا میں برطانوی فوجیوں کے قدموں کی نشانیاں بہت کم ہیں۔ اس بات کا کم اشارے ملتے ہیں کہ سیاستدانوں نے اپنے طویل مدتی اہداف کی وضاحت کرنے کے لیے کوئی بہتری حاصل کی ہو اور یہ کہ جنگوں میں مرد اور خواتین فوجیوں کو بھیجتے ہوئے ان اہداف کا حصول کیسے ممکن ہے ۔ 

 یہ معاملہ اس وقت بھی باقی رہتا ہے جب کسی ملک میں مداخلت کے لیے کی گئی جنگ کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ میں اس جنگ کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر دو سال قبل کوسوو واپس گیا تھا جس میں جنرل سر مائک جیکسن نے برطانیہ کی زیرقیادت نیٹو فورس کے اس مشن کی سربراہی کی تھی۔ 

برطانیہ کی کوسوو میں آزادی دلانے والے ملک کے طور پر پذیرائی کی جاتی رہی ہے۔ ٹونی بلیئر کا جنگ کے بعد کوسوو میں شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ ان کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ ملک میں ان کے اعزاز میں بچوں کا نام ٹونی بلیئر رکھنے کا رواج پڑ گیا تھا۔ 

سالگرہ کی تقریبات میں یورپی معززین اور ایک بڑی تعداد میں امریکی وفد بل کلنٹن، میڈیلین البرائٹ اور اس وقت امریکی نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل ویزلی کلارک کے ساتھ  موجود تھا۔ یہ وہ  ویزلی کلارک تھے جن کی جانب سے جیکسن نے روسیوں کے خلاف ’تیسری عالمی جنگ‘ شروع کرنے سے انکار کردیا تھا۔  

لیکن وہاں ایک بھی برطانوی وزیر یا برطانوی فوج کا کوئی سینئر افسر موجود نہیں تھا۔ تقریب میں ٹونی بلیئر کا نام صرف اس وقت سامنے آیا جب صدر کلنٹن نے ذکر کیا کہ ان کے نیو یارک دفتر میں سابق برطانوی وزیر اعظم کی تصویر موجود تھی۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا