ایک گولی کھائی اور سب کچھ نیلا ہو گیا

نوجوان سا لڑکا، گردن تک لمبے بال، کافی گورا رنگ، ملے ہوئے ابرو، آنکھیں چھوٹی اور درمیانہ قد، چلتی موٹرسائیکل پر بھی ماتھا گیلا تھا، گرمی یا طبیعت، گڑبڑ شکل پہ لکھی ہوئی، کاؤنٹر پہ کنفیوز سا آیا اور کہنے لگا مجھے سب کچھ نیلا نظر آ رہا ہے۔

(پکسابے)

'مجھے سب کچھ نیلا نظر آ رہا ہے، لال اور سبز رنگ تھوڑے کم دکھائی دے رہے ہیں۔'

ایک دوست کا میڈیکل سٹور ہوا کرتا تھا اور ہم لوگ، جہان کے فارغ اس کے دوست یار، ہم شام کو وہاں جا کر بیٹھ جاتے تھے۔ ان دنوں شاید کالج میں تھے ہم سب، گرمیاں تھیں، تو بس شام چھ کے آس پاس نشتر روڈ پہ بیٹھ جاتے تھے وہیں۔

کوئی مریض آتا تو سٹاف کے لڑکے اسے دوا دے دیتے، زیادہ رش ہوتا تو وہ خود پرچی دیکھ کے مطلوبہ چیزیں نکال دیتا، پھر واپس آ کے بیٹھ جاتا ہمارے پاس۔ یہ تقریبا روز کا معمول تھا۔ اصل میں ہم سب اس کی کمپنی انجوائے کرتے تھے۔

وہ ہمارے جیسا نہیں تھا، بڑے سے بڑا رسک، پنگا، بے وقوفی یا عقل مندی ۔۔۔ کچھ بھی، کسی بھی وقت وہ کر جاتا تھا۔ تو ہم لوگ بس یہی چیزوں کے مزے لیتے رہتے۔

آدمی شدید دلچسپ تھا، اب بھی ہے پر ملاقاتیں کم ہیں تو اندازہ نہیں کہ شغل کیا ہوں، اب داڑھی بھی ہے لمبی سی اس کی۔ تو خیر، ایک عادت جو اس کی میں نے دیکھی، وہ ہمیشہ ’کیریکٹرز‘ کی تلاش میں رہتا تھا۔ بڑے لوگ اس نے اپنے آس پاس جمع کیے ہوئے تھے اور سب میں کوئی نہ کوئی دلچسپ سنک تھی، کوئی ٹیڑھی عادت تھی۔ ویسے اس سمیت ہم لوگ خود بھی چنگے بھلے کیریکٹر ہی تھے۔

کیریکٹر کا تو آپ کو پتہ ہے نا؟ جیسے فرض کریں کوئی بندہ ہے، دوسرے لوگوں سے الگ سٹائل میں بات کرتا ہے، کوئی ہے جسے ہمیشہ تنگ کپڑے پہننے کا شوق ہے چاہے توند نکلی ہو، کوئی ہے جو شدید عالم ہے لیکن اتنا ہی میلا رہتا ہے، کوئی ہے جو بہت موٹا ہے اور بڑے خلوص سے ہنستا ہے ۔۔۔ مطلب کوئی چیز ہے جو نارمل لوگوں سے الگ ہے، تو وہ بندہ عام زبان میں کیریکٹر کہلائے گا۔

اس دن شدید گرمی تھی۔ ملتان کی گرمی سال کے دس مہینے شدید ہی ہوتی ہے، باقی دو مہینے کم گرم ہوتے ہیں، اسے مقامی لوگ سردی کا نام دیتے ہیں اور شال یا انگیٹھی وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ جولائی تھا، دن کے تین بجے تھے، ان دنوں دکانوں پہ کولر یا اے سی کی عیاشی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس دکان کا ایک کاؤنٹر سامنے مین روڈ پہ تھا ایک سائیڈ کا تھا جو پارکنگ کے ساتھ تھا۔

میں کالج سے چھوٹ کے اس دن سیدھا وہیں چلا گیا۔ گپ شپ کا موڈ تھا اور باتیں کرنے میں اس سے زیادہ دلچسپ بندہ مجھے آج تک نہیں مل سکا۔ اس کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ قریبی دوستوں کو شاہ جی کہتا تھا۔ گرمیوں کی دوپہر میں سڑک پہ ان دنوں کتے بے چارے رلتے تھے یا کوئی شدید غرض مند آدمی، ورنہ دکانداری کا سین پانچ چھ کے بعد چالو ہوتا تھا، تو بس ہم دونوں پسینے میں نہائے شدید پرخلوص طریقے سے ایک دوسرے کی باتوں پہ ہنس رہے تھے کہ ایک موٹرسائیکل سائیڈ والے کاؤنٹر سے قریب آ کے رکی۔

نوجوان سا لڑکا، گردن تک لمبے بال، بڑے کالروں والی قمیص، کافی گورا رنگ، ملے ہوئے ابرو، آنکھیں چھوٹی اور درمیانہ قد، چلتی موٹرسائیکل پر بھی ماتھا گیلا تھا، گرمی یا طبیعت، گڑبڑ شکل پہ لکھی ہوئی، کاؤنٹر پہ کنفیوز سا آیا اور اس سے کہا۔ مجھے سب کچھ نیلا نظر آ رہا ہے۔

یہ کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے چابی نیچے گر گئی۔ وہ جیسے ہی نیچے جھکا دوست میرے کان میں بولا، شاہ جی، ویاگرا! اب میں اس کی شکل دیکھوں کہ بات پوری کرے ادھر وہ جوان چابی اٹھا کے کھڑا ہو چکا تھا۔ دوبارہ بولا۔ مجھے سب کچھ نیلا نظر آ رہا ہے۔ اس نے سوال کیا، لال اور سبز رنگ میں فرق کر لیتے ہیں؟ حیرت سے اس کی شکل دیکھی اور بولا ’تھوڑے کم دکھائی دیتے ہیں۔‘

پوچھا کب سے ہے، لڑکے نے بتایا کہ صبح سے یہی معاملہ ہے۔ اس نے پوچھا ڈیٹ پہ جانا تھا، وہ سٹپٹا گیا، بولا نہیں نہیں میں تو سیدھے کالج سے آ رہا ہوں۔ اب اس نے ڈائریکٹ سوال کیا، ویاگرا کھائی تھی صبح؟ بڑی دیر ادھر ادھر کی ہانکنے کے بعد مان گیا کہ ہاں کھائی تھی اور پوری سو ملی گرام کی گولی لی تھی۔ دوست نے اسے بٹھا کر تھوڑی دیر پانی وانی پلایا، کوئی دوا دی، پندرہ بیس منٹ بعد وہ چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی میں نے حیرت سے پوچھا کہ یار تجھے کیسے پتہ چلا، بولا ہر دو تین ہفتے بعد کوئی نہ کوئی ایسا ہی کیریکٹر ٹکر جاتا ہے، ڈر کے مارے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے، میڈیکل سٹور سے علاج پوچھتے ہیں، سمجھا بجھا کے عام سی کوئی دوا دے کے رخصت کر دیتا ہوں کہ دو تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا اور ہو بھی جاتا ہے کیونکہ بعض لوگوں کو یہ دوا لڑ جاتی ہے، یہ سائیڈ ایفیکٹ ہے اس کا۔

وہ جوان بعد میں کئی مرتبہ اس کے پاس گھر کی دوائیں لینے آیا، ہر بار لمبے کالروں والی کوئی چست قمیص پہنی ہوتی تھی، ایک کیریکٹر تھا تو آج تک مجھے یاد رہ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلے ہفتے ہمارے ایڈیٹر ہمیں ڈاکیومینٹری اور فیچر لکھنے کے بارے میں بتا رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کوشش کریں کوئی ایک سٹرانگ کیریکٹر ڈھونڈیں، لوگ فلم بھول جاتے، ڈراما یاد نہیں رہتا، ناول کی پوری سٹوری دماغ سے اڑ جاتی ہے لیکن کوئی ایک تگڑا کیریکٹر انہیں فورا یاد آ جاتا ہے، واقعی ایسا ہے! اندھیرا اجالا میں ڈائریکٹ حوالدار، سونا چاندی میں چاچا ٹیم پیس، وارث میں چوہدری حشمت، آنگن ٹیڑھا میں اکبر اور عام زندگی میں کتنے ہی کردار ہیں جو ہم لوگ کبھی نہیں بھولتے۔

آج میں غور کرتا ہوں تو سمجھ آتا ہے کہ میرے آس پاس موجود سارے لوگ ہی کیریکٹرز کی تلاش میں رہتے تھے۔ قاسم کہتا تھا کہ یار میں ٹرین یا بس کے سفر میں کبھی بور نہیں ہوتا۔ صرف لوگوں کو دیکھتا ہوں، ان کی عادتیں دیکھتا ہوں، ان کی ہر چیز نوٹ کرتا ہوں، اسی میں سفر کٹ جاتا ہے۔ ابا، خاور، میں، ہم لوگوں کو بھی کئی کیریکٹر اکٹھے ٹکرے تھے۔

مثال کے طور پہ وہ انکل ہم تینوں کو آج تک یاد ہیں جو عید کے دن نماز پڑھنے شدید ترین مچڑی ہوئی شیروانی پہن کے آئے تھے اور تین صفوں تک سب سے بات چیت کرنے کی کوشش میں تھے۔ پھر ابھی دو چار دن پہلے عثمان قاضی بھائی سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بھی کئی کیریکٹر گنوا دیے، اردو میں خاکہ نویسی کی صنف ہی پوری ایسے کرداروں پہ کھڑی ہے۔

دنیا رنگین جگہ ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ کا مشاہدہ طاقتور ہے، انسان کو کسی بھی ترازو میں تولنے کی بجائے آپ صرف اس کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ضرورت پر ایک دوسرے کے کام آ جاتے ہیں، لوگوں سے ہنس بول سکتے ہیں تو آپ سمیت ساری کائنات کیریکٹروں سے بھری پڑی ہے۔ کسی کتاب کی ضرورت نہیں، کوئی فلم، کوئی ڈراما، کوئی نشہ، کچھ بھی انسانوں سے زیادہ دلچسپ نہیں ہے لیکن تب تک جب تک آپ ان سے کوئی توقع کرنا شروع نہ کر دیں۔

جب تک آپ تماشبین ہیں تماشہ آپ کا دل بہلائے گا، جس وقت تماشے میں آپ کردار بن گئے تب آپ خود تماشہ ہیں۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی بہرحال ایک کردار بن جاتے ہیں، ایک جیتا جاگتا محسوسات رکھنے والا کردار ۔۔۔ تب گیم ہاتھ سے نکل کر کسی اور تماش بین کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔

قصہ مختصر، اپنے آس پاس کے سب کردار یاد کریں، کوئی دلچسپ قصہ ذہن میں آ جائے تو ضرور لکھیں، زندگی ایک سٹیج ہے اور ہم سب اداکار، شاید شیکسپئیر نے کہا تھا!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ