امریکی سپر مارکیٹ پر فائرنگ: مشتبہ حملہ آور کون ہے؟

علیسہ کے بھائی نے اخبار ’دا ڈیلی بیسٹ‘ کے ساتھ بات کی ہے اور انہیں ’بے حد سماج دشمن‘ اور دماغی بیماری میں مبتلا قرار دیا۔

مبینہ حملہ آور احمد علیسہ (اے ایف پی/بولڈر پولیس ڈپارٹمنٹ)

پیر کو امریکی ریاست کولوراڈو کے علاقے بولڈر کی سپر مارکیٹ میں فائرنگ کر کے دس افراد کو ہلاک کرنے والے شخص کے بھائی نے انہیں انتہائی درجے کے ذہنی انتشار میں مبتلا قرار دیا ہے۔

پولیس نے عام استعمال کی اشیا فروخت کرنے والے سٹور پر فائرنگ کرنے والے شخص کی شناخت احمدالعلیوی علیسہ کے نام سے کی جن کی عمر 21 سال ہے۔ انہیں ٹانگ پر گولی مار گئی اور پولیس افسروں نے فائرنگ کے مقام پر پہنچ کر انہیں تحویل میں لے لیا تھا۔

علیسہ کے بھائی نے اخبار ’دا ڈیلی بیسٹ‘ کے ساتھ بات کی ہے اور انہیں ’بے حد سماج دشمن‘ اور دماغی بیماری میں مبتلا قرار دیا۔

فائرنگ کرنے والے شخص کے 34 سالہ بھائی علی علیوی علیسہ نے کہا کہ ’جب وہ میری بہن کے ساتھ ریستوران میں دن کا کھانا کھا رہے تھے تو انہوں نے کہا ’لوگ پارکنگ لاٹ میں ہیں۔ وہ مجھے تلاش کر رہے ہیں۔ وہ (بہن) باہر نکلیں اور دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ ان (بھائی) کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی اس سے پہلے دوسروں سے ملنے جلنے والے تھے لیکن سکول میں ’غنڈہ گردی‘ کا نشانہ بننے کے بعد سماج دشمن بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں مانتے کہ ان کے بھائی کا حملہ کسی قسم کی سیاست کا اظہار تھا۔

’یہ سیاست کا اظہار (بالکل نہیں تھا۔) یہ ذہنی بیماری ہے۔ انہیں ہائی سکول میں غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا جاتا۔ وہ ملنسار لڑکے کی طرح تھے لیکن جب وہ ہائی سکول پہنچے اور انہیں غنڈہ گردی کا بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا تو وہ سماج دشمن ہونا شروع ہو گئے۔‘

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق حملہ آور کا خاندان 2002 میں شام سے ہجرت کر کے امریکہ آیا تھا۔

علیسہ کے بھائی نے کہا ہے کہ نہ تو وہ زیادہ سیاسی تھے اور نہ ہی مذہبی اور انہیں (مجھے) ہلاکتوں سے صدمہ پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے پورے واقعے پر حیرت ہوئی ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسا کام کریں گے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ لوگوں کو ہلاک کریں گے۔ میں اب بھی اسے نہیں مان سکتا۔ انہوں نے جو زندگیاں ضائع کیں مجھے اس پر افسوس ہے اور مجھے ان تمام خاندانوں سے ہمدردی ہے۔ ہم نے بھائی کھویا ہے چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔‘

اخبار ’دا ڈینور پوسٹ‘ 2017 کا ایک ریکارڈ سامنے لایا ہے جس میں ایک واقعے کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس وقت علیسہ کی عمر 18 سال تھی۔

انہوں نے ہائی سکول میں ایک ہم جماعت پر حملہ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے خبردار کیے بغیر ہم جماعت کے سر پر مکے برسائے اور لڑکا زمین پر گر گیا تو پھر بھی علیسہ نے حملہ جاری رکھا۔ مقدمے کے ایک بیان حلفی کے مطابق ہم جماعت کو سر پر زخم اور خراشیں آئیں۔

اس واقعے کے بعد علیسہ پر تیسرے درجے کے حملے کا الزام عائد کیا گیا۔ انہیں دو ماہ کی پروبیشن (آزمائشی سزا) اور 48 گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا دی گئی۔

اخبار نے علیسہ کی کشتی ٹیم کے ایک سابق رکن سے بھی بات کی ہے جنہوں نے انہیں جلد غصے میں آنے والا اور پرتشدد قرار دیا ہے۔

کشتی ٹیم کے سابق رکن ڈیٹن مارویل کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسے شخص تھے جن کی اردگرد موجودگی سے خوف محسوس ہوتا تھا۔‘

انہوں نے 2018 کا ایک واقعہ یاد کیا جس میں وہ (علیسہ) نے کشتی ٹیم کے ارکان کے درمیان ہونے والے ایک مقابلے میں شدید غصے میں آ کر لوگوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ماریل نے کہا کہ ’یہ دیکھنے کے لیے کشتی کے مقابلوں میں سکول کی سطح پر کامیابی کسے ملی گی، اپنے آخری سال علیسہ حقیقت میں اپنا میچ ہار گئے جس کے بعد وہ ریسلنگ روم میں اس طرح چیخے جس سے یہ لگا کہ وہ سب کو ہلاک کر دیں گے۔ کسی نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ بس ہم سب اس بات سے ڈر گئے تھے لیکن اس معاملے میں کسی نے کچھ نہیں کیا۔‘

ریسلنگ ٹیم کے ایک اور ساتھی اینجل ہرنانڈیز نے کہا کہ میچ ہارنے پر ایک ریسلر نے علیسہ کو تنگ کیا جس کے بعد ان کی اس ریسلر کے ساتھ مکوں سے لڑائی ہوئی۔

مارویل نے کہا کہ علیسہ اکثر دوسروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں ہراساں کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنے مسلمان ہونے اور اس بارے میں بات کرتے تھے کہ اگر کسی نے ان کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کی تو کیا کریں گے۔ وہ نفرت پر مبنی جرم کا مقدمہ دائر کرتے اور کہتے کہ دوسرے لوگ اس کا سبب بنے۔ یہ ایک پاگل پن تھا۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دماغ کے مالک لڑکے تھے حتیٰ کہ کوئی بات انہیں پاگل بنا دیتی۔ تب جب کوئی بات انہیں پاگل بنا دیتی وہ حد سے بڑھ جاتے تھے۔ وہ بہت دور نکل جاتے۔‘

تفتیش کاروں نے فائرنگ کرنے والے شخص کے ساتھ بات کی ہے اور کہا ہے کہ وہ تاحال مزید لوگوں کے بیانات جمع کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا ہے کہ حملہ آور کا تعلق ریاست کولوراڈو کے علاقے ارواڈا سے ہے اور وہ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت امریکہ میں گزارا ہے۔

فیس بک پر کسی ’احمدالعیسیٰ‘ نامی شخص کا پیج جو تب سے ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے اس پیج میں بتایا گیا تھا کہ اس پیج کے مالک 1999 میں شام میں پیدا ہوئے اور ارواڈا ویسٹ ہائی سکول میں ریسلر تھے۔ سوشل میڈیا پیج پر کی گئی پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص مارشل آرٹس یعنی کشتی اور کک باکسنگ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

پیج کے مالک نے بظاہر میٹروپولیٹن سٹیٹ یونیورسٹی آف ڈینور میں کمپیوٹر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 2019 کی ایک پوسٹ میں صرف اتنا کہا گیا تھا ’# نیڈ اے گرل فرینڈ۔‘ جب وہ سکول میں تھے تو انہوں نے ایک اور پوسٹ میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ انہیں ہدف بنانا ’یقینی طور پرنسل پرستی‘ کا حصہ ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کوئی میرے بارے میں افواہیں پھیلا رہا جو غلط ہیں۔‘

علیسہ کو حملہ آور نامزد کیے جانے کے ایک گھنٹے کے اندر یہ پیج ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

حملہ آور پر پہلے درجے کے قتل کے دس الزامات عائد کیے گئے ہیں اور زخموں کے علاج کے بعد انہیں بولڈر کاؤنٹی کی جیل بھیج دیا گیا ہے۔ تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ علیسہ نے اکیلے فائرنگ کی۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے علیسہ کے گھر کی تلاشی لی ہے جہاں سے انہیں دوسرے ہتھیار ملے ہیں۔

پولیس کے بیان حلفی کے مطابق افسروں نے گھر سے جانے والی ایک خاتون کو روکا جن کے بارے میں انہوں نے طے کیا کہ وہ حملہ آور کی دور کی رشتہ دار تھیں۔

خاتون نے حال ہی میں علیسہ کے رشتہ داروں میں ایک کے ساتھ شادی کی ہے۔ انہوں نے پولیس افسروں کو بتایا کہ انہوں نے دیکھا تھا کہ فائرنگ کرنے والے شخص دو دن پہلے گھر میں ایک ’مشین گن‘ کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ فائرنگ کرنے والے نے حملے سے چھ دن پہلے پستول خریدا تھا۔ ایک اے آر 15 طرز کا پستول جس میں آرم بریس کا اضافہ کر کے تبدیلی کی گئی تھی۔

پولیس کو ابھی تک فائرنگ کرنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

بولڈر پولیس کی سربراہ مارس ہیرولڈ کے بقول ’مشتبہ شخص کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیر 22 مارچ کو دوپہر کے بعد تقریباً دو بج کر40 منٹ پر سروں کو کنگز سوپرز بھیجا گیا۔ وہ چند منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ کر سپر سٹور میں داخل ہو گئے اور مشتبہ شخص کو مصروف کر لیا۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ مشتبہ شخص کو گولی ماری گئی اور متعدد دوسرے افسر زخمی ہوئے۔‘

پولیس سربراہ نے کہا کہ تحقیقات جاری رکھنے کے لیے ان کا محکمہ ریاستی اور وفاقی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے مکمل تحقیقات کے لیے ریاستی، مقامی اور وفاقی حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور ہم ان تمام خاندانوں کو انصاف فراہم کریں گے۔‘

پولیس نے کولوراڈو میں لوگوں پر فائرنگ سے متاثر ہونے والے افراد کی شناخت کر لی ہے۔ بولڈر کاؤنٹی پولیس نے دس متاثرین کو ایک ہی رات میں شناخت کر لیا تھا۔

فائرنگ سے متاثرہ افراد جنہیں شناخت کیا گیا ہے ان میں 20 سالہ ڈینی سٹرونگ، 23 سالہ نوین سٹیناسک، 25 سالہ ریکی اولڈز،49 سالہ ٹریلونہ برٹ کوویاک، 59 سالہ سوزین فاؤنٹین، 51 سالہ ٹیری لیکر،51 سالہ ایرک ٹیلی،61 کیون مہونی، 62 سالہ لین مرے اور 65 سالہ جوڈی واٹرز شامل ہیں۔

متاثرہ افراد میں سے ایک بولڈر کے محکمہ پولیس کے افسر ایرک ٹیلی ہیں جو حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ حملہ شروع ہونے کے بعد وہ پہلے افسر تھے جو جائے وقوعہ پر پہنچے۔ ایک متاثرہ شخص کی لاش کار میں پائی گئی جو پارکنگ لاٹ میں کھڑی تھی۔

بظاہر اس شخص نے فائرنگ کرنے والے کی آمد کے بعد گاڑی ان کے قریب کھڑی کی تھی۔

ہیرولڈ اور ٹیلی کے سات بچے ہیں۔ ہیرولڈ نے کہا: ’ہمارے دل تشدد کے اس ناقابل فہم عمل کے دوران ہلاک ہونے والے تمام افراد کے لیے غمزدہ ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ