رائفل شوٹنگ: کھیل تو مہنگا لیکن شوق کا کوئی مول نہیں

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نشانہ بازی کا یہ کھیل خوب پروان چڑھ رہا ہے، جس میں بچوں اور نوجوانوں سے لے کر عمر رسیدہ افراد بھی حصہ لیتے ہیں۔

زمانہ قدیم میں قبائل دشمن سے بچاؤ کے لیے نشانہ بازی کی مشق کرتے تھے، جو پہلے تیر کمان سے ہوتی تھی اور بعد میں جب بندوق ایجاد ہوئی تو پھر اس سے نشانہ لگایا جاتا تھا۔

بلوچستان کے قبائل بھی حریف قبیلوں اور بیرونی دشمن سے بچاؤ کے لیے نشانہ بازی کی مشق کرتے تھے۔

بلوچ تاریخ کی اہم شخصیت چاکر رند کے زمانے میں رند قبائل نشانہ بازی کے شوقین تھے اور وہ میلوں وغیرہ میں اس فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔

زمانے کی جدت کے ساتھ نشانہ بازی کا شوق ایک کھیل کی شکل اختیار کرتا گیا اور اب بلوچ قبائل کی شادیوں میں اس کے مقابلے ہوتے ہیں۔

دیہی علاقوں میں شادی کی تقریب کے دوران جہاں بلوچی چھاپ اور اتنڑ کے دوران رقص کیاجاتا ہے۔ وہاں ایک مقابلہ نوجوانوں کے درمیان نشانہ بازی کا بھی ہوتا ہے، جس میں درست نشانہ لگانے والے کو انعام بھی دیا جاتا ہے۔

خصوصاً کوئٹہ میں یہ کھیل فروغ پارہا ہے اور اس کے مقابلے بھی کیے جاتے ہیں، جن میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے بوڑھے، جوان اور نوعمر بچے حصہ لیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شوٹر امیر معاویہ بھی ہیں، جنہیں بچپن سے نشانہ بازی کا شوق رہا ہے اور وہ مقامی اور قومی سطح کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند سرگرمی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک مہنگا کھیل بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس میں جو رائفل استعمال ہوتی ہے، اسے ڈنگر کہا جاتا ہے۔ ڈنگر رائفل کو تھری ناٹ تھری بھی کہتے ہیں۔ یہ مشہور رائفل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاویہ کے مطابق: ’یہ کھیل مہنگا اس وجہ سے ہے کیونکہ ڈنگر رائفل بنانے میں تین سے چار لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے اور اس کے بعد آپ کو ہفتہ وار اس کی مشق بھی کرنی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہر مشق کے دوران کم از کم 20 سے 25 گولیاں استعمال ہوتی ہیں اور ایک گولی کی قیمت اس وقت 80 روپے ہے۔

معاویہ نے بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ کسی نے رائفل بنائی اور آکر مقابلے میں حصہ لیا بلکہ اس کے لیے ہر ہفتے مشق کرنی پڑتی ہے اور جب نشانہ لگانے میں بہتری آجائے تو تب ہی کوئی مقابلے میں حصہ لے سکتا ہے۔‘

نشانہ لگانے کی جگہ پر مختلف چیزیں رکھی جاتی ہیں، جن میں بوتلیں بھی شامل ہیں۔

معاویہ نے بتایا کہ ’جب ہم اس کی مشق کرتے ہیں تو اس دوران اگر کسی نے پانچ فائر کرکے پانچ بوتلیں اڑادیں تو اسے دوبارہ پانچ فائر کرنے ہوتے ہیں۔‘

نشانہ بازی کا فن بلوچ قبائل کےساتھ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں بھی یکساں مقبول ہے اور اکثر نوجوان اور بوڑھے اس میں حصہ لیتے ہیں۔

معاویہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت اس کھیل کی سرپرستی کرے اور کھلاڑیوں کو پروموٹ کرکے عالمی مقابلوں کے لیے تیار کیا جائے تو بلوچستان سے بہت سے نام سامنے آئیں گے، جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا