ترکی کانفرنس: طالبان کے شرکت سے انکار کی ممکنہ وجوہات کیا؟

 ترکی میں ہونے والی اس کانفرنس میں امریکہ اور افغان حکومتی وفد سمیت افغان امن عمل سے جڑے مختلف سٹیک ہولڈرز کی شرکت متوقع ہے، جس میں افغانستان میں مستقبل کی حکومت، وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغانستان میں عبوری حکومت کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔

12 ستمبر 2020 کی اس تصویر میں  قطر کے دارالحکومت دوحہ میں  افغان حکومت اور افغان طالبا ن کے مابین ہونے والے امن مذاکرات کے دوران  طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر (دائیں سے پہلے) گفتگو کر رہے ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

افغان طالبان نے ممکنہ طور پر رواں مہینے ترکی میں 'افغان امن عمل' سے جڑی ایک کانفرنس میں شرکت سے اس وجہ سے انکار کردیا ہے کہ ان کی اس معاملے پر 'حتمی بات چیت ابھی  مکمل نہیں ہوئی ہے۔'

افغان طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ترکی کانفرنس میں ہم شرکت نہیں کریں گے، کیونکہ کانفرنس کے حوالے سے ہمارے مشورے ابھی تک حتمی نہیں ہوئے ہیں۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغان طالبان نے کانفرنس میں تاخیر کے لیے وقت مانگا ہے یا کوئی تاریخ دی ہے؟ تو محمد نعیم نے بتایا: 'ہم نے ابھی تک کسی وقت کا انتخاب نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہم نے اس کانفرنس کے لیے کوئی تاریخ دی ہے۔'

اس کانفرنس میں امریکہ اور افغان حکومتی وفد سمیت افغان امن عمل  سے جڑے مختلف سٹیک ہولڈرز کی شرکت متوقع ہے، جس میں افغانستان میں مستقبل کی حکومت، وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغانستان میں عبوری حکومت کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس کانفرنس میں افغان طالبان کی شرکت نہایت اہمیت کی حامل ہے، تاہم اس ایک کانفرنس سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

سینیئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ افغان طالبان نے ابھی تک اس طرح انکار نہیں کیا ہے کہ وہ بالکل شرکت نہیں کریں گے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے مشورہ کر رہے ہیں اور ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

تاہم رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان اس کانفرنس میں شرکت ضرور کریں گے۔ انہوں نے بتایا: 'میں سمجھتا ہوں کہ افغان طالبان نے کانفرنس میں شرکت کو دوحہ مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے لیے دی گئی یکم مئی کی ڈیڈ لائن کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ وعدے کے مطابق یکم مئی تک غیر ملکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا ممکن بنائیں تو تب ہی وہ ترکی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔'

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 'شرکت نہ کرنے سے افغان طالبان کے اوپر ایک الزام آئے گا کہ وہ افغانستان میں امن کے خلاف ہیں اور تنقید کا رخ ان کی طرف ہوجائے گا، اس لیے میرے خیال میں افغان طالبان کانفرنس میں شرکت کریں گے، تاہم اس کو غیر ملکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رحیم اللہ یوسفزئی سے جب پوچھا گیا کہ ترکی کانفرنس افغانستان میں امن کے لیے کتنی اہم ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بات چیت اس عمل میں اہم ہے، چاہے جہاں پر بھی ہو کیونکہ بین الافغان مذاکرات تاخیر کا شکار رہے تو امریکہ نے اسے ترکی میں کروانے کیا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بات آگے جا سکے۔

انہوں نے بتایا: 'کانفرنسز ہونی چاہییں، جس طرح اس سے پہلے دوشنبہ اور ماسکو میں افغان امن کے حوالے سے کانفرنسز منعقد کی گئیں، تاہم یہ باتیں ایک کانفرنس میں حل نہیں ہوسکتیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کانفرنس کے بعد دوحہ میں بھی دوبارہ بات چیت جاری رہے گی۔'

دوسری جانب افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار طاہر خان افغان طالبان کی جانب سے ترکی کانفرنس میں انکار کو ابھی خطرہ نہیں سمجھتے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: 'افغان طالبان کے انکار سے لگتا ہے کہ انہوں نے وقت مانگا ہے اور شرکت سے انکار نہیں کیا ہے۔' 

ان کا مزید کہنا تھا: 'یہ کانفرنس ترکی میں اقوام متحدہ کی مدد سے منعقد کی جا رہی ہے اور ترکی اور امریکہ نے ممکنہ تاریخ 16 اپریل دی تھی، جس کے لیے امریکہ اور افغان حکومت کے پاس ایک پلان تو موجود تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کے پاس ابھی باقاعدہ پلان موجود نہیں ہے اور پلان بنانے کے لیے وہ وقت مانگ رہے ہیں۔'

 طاہر خان کے مطابق: 'ترکی کانفرنس میں شرکت پر طالبان کے  مابین بھی اختلافات موجود ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ شرکت نہیں کرنی چاہیے جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ شرکت نہ کرنے سے ان کے اوپر ایک الزام آئے گا کہ یہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'ترکی کانفرنس میں بنیادی باتیں یہی ہو سکتی ہیں کہ افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام اور جنگ بندی کیسے ہوگی۔ بعض لوگ ترکی کانفرنس  کو جرمنی میں منعقدہ بون کانفرنس کے بعد دوسری افغان بون کانفرنس سمجھتے ہیں۔ جس طرح بون کانفرنس 2001 میں منعقد ہوئی تھی اور افغانستان کی مستقبل کی عبوری حکومت اور دیگر فیصلے ہوئے تھے، اسی طرح کا منصوبہ ترکی کانفرنس کے لیے بنایا گیا ہے۔'

دوحہ معاہدے کے تحت قطر کے دارالحکومت میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات سات ماہ گزرنے کے باوجود بھی شروع نہیں ہو سکے۔ طاہر خان کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ 'اس بنیادی مسئلے اور ڈیڈ لاک کی وجہ افغان طالبان کی جانب سے یہ ہے کہ وہ افغان حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہتے، جس طرح اشرف غنی کا موقف ہے کہ طالبان موجودہ حکومت میں شامل ہوجائیں اور آئندہ کا پلان ہم بنائیں گے۔'

انہوں نے بتایا: 'یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ افغان طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کا حصہ بن جائیں کیونکہ افغان طالبان نے ہمیشہ  ان کی مخالفت کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پلان تو مختلف سٹیک ہولڈرز نے بنائے ہوں گے تاہم اہم بات یہی ہے کہ پہلے یہ ایک میز پر بیٹھیں، تب ہی مختلف منصوبوں پر بات کرسکتے ہیں۔'

افغان حکومت ترکی کانفرنس پر کیا کہتی ہے؟

افغان طالبان کی جانب سے ترکی کانفرنس میں فی الحال شرکت نہ کرنے کے اعلا ن پر انڈپینڈنٹ اردو نے افغان صدر  اشرف غنی  کے ترجمان دوا خان مینہ پال سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 'افغان حکومت افغانستان میں امن اور  افغان عوام کے بہتر مفاد میں ہر وقت بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔'

انہوں نے بتایا: 'ہم ہر جگہ افغان طالبان کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ترکی کانفرنس کے حوالے سے بھی ہماری مشاورت جاری ہے اور جو افغانستان کے مفاد میں ہوگا، ہم وہی کریں گے۔'

واضح رہے کہ اس کانفرنس کے حوالے سے افغان امن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمی خلیل زاد نے کابل  کے مختلف دورے کیے اور  افغان حکومت کے اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور وہ ترکی کانفرنس کے لیے پر امید ہیں۔

گذشتہ مہینے امریکہ نے افغان حکومت اور افغان طالبان کو افغانستان کی مستقبل کی حکومت اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے آٹھ صفحات پر مشتمل  ایک مسودہ بھی بھیجا تھا  اور دونوں فریقین کو بتایا گیا تھا کہ وہ اس مسودے کو ترکی کانفرنس میں زیر بحث لائیں گے۔

انڈپینڈنٹ فارسی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ استنبول کانفرنس کے حوالے سے افغان اعلیٰ مفاہمتی کونسل کی جانب سے بھی حتمی منصوبہ سامنے آیا ہے، جسے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور زلمی خلیل زاد کے موقف کے مطابق حتمی  شکل دی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تین جزو ہیں، جس میں افغانستان کے آئندہ آئین، افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام اور فغانستان میں آئندہ کے سیاسی ڈھانچے کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق اس منصوبے کے تحت افغانستان میں کم از کم تین سال تک عبوری حکومت قائم ہوگی جبکہ مسودے میں افغانستان میں سیاسی نظام کے مستقبل اور جنگ بندی کی بات بھی کی گئی ہے۔

مسودے کے مطابق استنبول کانفرنس میں مسودے پر دستخط ہونے کے 24 گھنٹے بعد  افغانستان میں جنگ بندی کا  اعلان کیا جائے گا ۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق تاہم اس منصوبے میں افغانستان  میں عبوری حکومت پر زور دیا گیا ہے، جس کی اشرف غنی پہلے سے مخالفت کرتے رہے ہیں جبکہ امریکہ، طالبان اور مختلف سٹیک ہولڈرز افغانستان میں عبوری حکومت کے حق میں ہیں۔

مسودے میں آئینی ترامیم کی بھی بات کی گئی ہے، تاہم اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق اور بنیادی انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے۔

دوسری جانب ترکی کانفرنس میں شرکت سے طالبان کے انکار پر ابھی تک امریکہ کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے البتہ یکم مئی کی بجائے افغانستان سے فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن امریکی ذرائع کے مطابق گیارہ ستمبر 2021 کر دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ترکی نے افغانستان امن عمل کے حوالے سے استنبول میں منعقد ہونے والے دس روزہ کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جو ترکی وزارت خارجہ کے مطابق 24 اپریل سے چار مئی تک جاری رہے گا۔

کانفرنس کی تاریخ کا ترکی کے جانب سے حتمی اعلان اس وقت آیا ہے جب طالبان نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کیا ہے کیونکہ طالبان سمجھتے ہیں ابھی تک ہم نے اس کانفرنس کے حوالے سے مشورے مکمل نہیں کیے ہیں۔

اس سے پہلے حتمی طور پر نہیں لیکن ترکی اور امریکہ اس کانفرنس کو 16 اپریل سے شروع کرنے کے خواہش مند تھے تاہم اب سرکاری طور پر کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا