وفاقی حکومت کا تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے ہے کہ مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی سمری کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر کے مطابق انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے رولز 11 بی کے تحت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی سفارش کے بعد تحریک لبیک پاکستان  پر پابندی کی سمری کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔

شیخ رشید نے ایک پریس کافرنس کے دوران کہا کہ مذہبی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ سیاسی حالات کی بنا پر نہیں بلکہ تحریک لبیک کے کردار کی وجہ سے لگائی جا رہی ہے۔

تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے کے حوالے سے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت معاہدے پر قائم تھی لیکن تحریک لبیک ایسے معاہدے کی خواہش مند تھی جس میں تمام لوگوں کو یورپ واپس بھیج دیا جاتا۔

ان کے مطابق اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں سے رائفل چھین کر فائرنگ کی گئی، تشدد کے واقعات میں دو پولیس اہلکار جان سے جا چکے ہیں جبکہ 340 زخمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’تحریک لبیک کے کارکنوں نے تھانے پر حملے کر کے پولیس اہلکاروں کو اغوا بھی کیا۔‘

انہوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سڑکوں پر بے امنی پھیلانے والوں کا قانون کے ذریعے پیچھا کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد سے لاہور سمیت ملک کے کئی شہروں میں تین روز سے پرتشدد احتجاج جاری ہے۔

اس احتجاجی دھرنے کے دوران اب تک ملک کے مختلف مقامات پر توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

 

نامہ نگار ارشد چوہدردی کے مطابق لاہور میں دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا مقدمہ سعد حسین رضوی سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے جبکہ ٹی ایل پی قیادت نے اپنے 16 کارکنوں کی ہلاکت کا مقدمہ وزیر داخلہ شیخ رشید اور پولیس حکام کے خلاف درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔

پولیس ترجمان رانا عارف کے مطابق لاہور ریجن میں مظاہروں کے دوران مشتعل مظاہرین نے دو پولیس اہلکاروں محمد افضل اورعلی عمران جان سے گئے جبکہ 97 سے زائد زخمی ہیں، جن میں سے بیشتر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ مختلف مقامات پر پولیس کی تین گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں اور سینکڑوں اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی چوراہوں پر عام شہریوں کی گاڑیاں بھی توڑ دی گئیں اور املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا، تاہم مظاہروں میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے ابھی حتمی نہیں کہا جا سکتا۔

تحریکِ لبیک کا شیخ رشید کے استعفے کا مطالبہ

دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے رہنما عنایت الحسن شاہ نے بتایا کہ ’ملک بھر میں ٹی ایل پی کے 16 کارکن مارے گئے جبکہ چار سو سے زائد پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے ساڑھے چار سو سے زائد زخمی ہیں۔ تین ہزار سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن ہم اپنے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج اور دھرنوں کو ختم نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم پر تشدد وزیر داخلہ شیخ رشید کے حکم پر ہوا، اس لیے ہم جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے کارکنوں پر تشدد کا مقدمہ شیخ رشید اور پولیس حکام کے خلاف درج کرائیں گے۔‘

پیر عنایت الحسن نے کہاکہ ’اب ہم فرانسیسی سفیر کو نکالنے، سعد رضوی سمیت تمام حراست میں لیے گئے کارکنوں کی رہائی کے ساتھ وزیر داخلہ شیخ رشید کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ حکومت نے خود معاہدہ کیا کہ وہ 20 اپریل تک سفیرکو نکال دیں گے لیکن اس سے پہلے ہی ہماری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا، اس لیے ان حالات کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔‘

واضح رہے کہ وزارت داخلہ کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز رینجز اور پولیس نے پنجاب کے بیشتر جی ٹی روڑ اور شاہراہیں کھلوا دی ہیں لیکن شہری علاقوں میں دھرنے جاری ہیں۔

کراچی میں دھرنے ختم، راستے کھل گئے

کراچی سے نامہ نگار امرگُرڑو کے مطابق شہر قائد میں گذشتہ تین روز سے مختلف مقامات پر جاری تحریک لبیک پاکستان کے احتجاجی دھرنوں کے بعد بدھ کی صبح تمام راستوں کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ 

ٹریفک پولیس کے مطابق ملک سے سب سے بڑے شہر میں صورت حال معمول پر آ گئی ہے  اور کسی بھی جگہ پر کوئی بھی راستہ ٹریفک کے لیے بند نہیں ہے۔ 

گذشتہ شب سٹارگیٹ شاہراہ فیصل پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا جبکہ مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کرنے کے ساتھ شاہراہ فیصل پر سٹار گیٹ کے مقام پر مظاہرین نے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اور کئی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ 

سندھ پولیس کے ایک بیان کے مطابق مظاہرین سے جھڑپوں کے دوران ایس ایس پی عرفان بہادر سمیت کئی اہلکار زخمی ہو گئے۔  

دوسری جانب کورنگی میں مظاہرین کے پتھراؤ سے ایس ایچ او سعود آباد  سمیت پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔ حب ریور روڈ بلدیہ نمبر چار پر سحری کے وقت مظاہرین کی ہنگامہ آرائی، مشتعل مظاہرین نے پولیس موبائل کو آگ لگا دی تھی۔  

سندھ پولیس کے مطابق شہر میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں اور ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس کا ایکشن،11 مقدمات درج کر کے سے تحریک لبیک پاکستان کراچی کے امیر مفتی محمد مبارک عباسی سمیت 164 افراد کو گرفتار کر لیا۔ 

ترجمان ٹی ایل پی کے ایک بیان کے مطابق تین روز سے جاری مظاہروں کے دوران کراچی میں ٹی ایل پی کے پانچ کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔ 

کراچی پولیس نے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے کیسوں کے اندارج کے بعد گرفتار ٹی ایل پی کے 67کارکنوں کوانسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کردیا۔  

عدالت نے 16 اپریل تک ملزموں کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ ملزمان پر جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ، پولیس پر فائرنگ کرنے کے الزام میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس نے ملزمان کو بلال کالونی، اورنگی ٹاؤن، نیو کراچی، پیر آباد، کھارادر، پی آئی بی کالونی اور تھانہ نیو ٹاؤن کی حد سے گرفتار کیا تھا۔ 

نامہ نگار ہزار بلوچ کے مطابق بلوچستان میں بھی تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف شاہراہوں کو بلاک کرکے احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کی مرکزی کی کال پر ٹی ایل پی کے کارکنون نے خضدار میں جھالاوان بس اڈے کے قریب  کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بلاک کیا۔

شاہراہ کوکھولنے کے لیے پولیس نے مظاہرین سے بات کی لیکن نہ ماننے پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی اس دوران مبینہ طور پر فائرنگ سے ایک کارکن حافظ سلیم زخمی ہوا جسے علاج کے لیے کراچی منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں دم توڑ گیا۔

کارکن کی ہلاکت کے بعد مظاہرین مشتعل ہوگئے اور انہوں نے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ جسے منگل کے روز بیس گھنٹے کی بندش کے بعد حکام سے مذاکرات اور مقدمہ درج کرنے کےبعد مظاہرین نے شاہراہ کو کھول دیا۔

اس دوران پتھراؤ سے چارپولیس اہلکار زخمی ہوئے اور پولیس نے آٹھ مظاہرین کو گرفتار کیا۔ واضح رہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کی فائرنگ سے ان کا کارکن ہلاک ہوا تاہم پولیس نے اس کی تردید کی۔ دوسری جانب فائرنگ کے مقدمہ بھی نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ 

خضدار کے علاوہ قلات میں بھی تحریک لبیک کے کارکنوں نے  قومی شاہراہ کو بلاک کیا جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نو مظاہرین کو گرفتار کرکے شاہراہ کو کھول دیا۔ ڈیرہ مراد جمالی میں بھی مظاہرین نے قومی شاہراہ کو بند کرکے احتجاج کیا۔  

تحریک لبیک کے کارکنوں کے احتجاج کے باعث شاہراہیں بند ہونے سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

 شاہراہوں کی بندش کے علاوہ تحریک لبیک کے کارکنوں نے گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب کے باہر بھی احتجاج مظاہرہ کیا اور اپنے امیر سعد رضوی کی گرفتاری اور خضدار میں کارکن کی ہلاکت اور فائرنگ کی مذمت کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان