لاہور: کچرے کے لیے چار ارب کی گاڑیاں اور گھوسٹ ملازمین

روزانہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ٹن کچرا پیدا کرنے والے لاہور شہر کو صاف رکھنے کی ذمہ دار لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا کہنا ہےکہ وہ ساڑھے چار ارب روپے کے خرچے پر 950 گاڑیاں خریدنے جا رہی ہے۔

لاہور  میں جابجا کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ (تصویر: ارشد چوہدری)

کافی عرصے سے مرکزی اور سوشل میڈیا پر شہر لاہور میں کچرے کے ڈھیروں کے چرچے ہیں اور اس کا ذمہ دار لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے کے حوالے سے ایل ڈبلیو ایم سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) عمران علی سلطان سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر شہر میں صفائی کے فقدان اور کچرے کے ڈھیروں میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔

عمران علی سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لاہور شہر میں روزانہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ جب ترکی کی کمپنی البراق کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہوا تو اس کے بعد جنوری سے ہم بحران کی حالت میں تھے۔ اب ہم سات مارچ سے یہ سارا کوڑا اٹھا رہے ہیں، لیکن ایسٹر کے موقع پر، جب زیادہ تر سینٹری ورکرز چھٹی پر ہوتے ہیں اور دوسرا تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں اور مظاہروں کے سبب سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے ہم گذشتہ چند روز سے روزانہ کا بمشکل چار ہزار ٹن کوڑا ہی اٹھا پا رہے ہیں۔‘

عمران علی سلطان نے مزید بتایا: ’ہماری کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سڑکوں پر پھر سے کوڑا نظر آنا شروع ہو جائے گا اور ہماری کارکردگی سب کو خراب نظر آئے گی۔‘

عمران نے بتایا کہ 2011 میں جب لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا ترک کمپنی البراق کے ساتھ معاہدہ ہوا تو اس کے بعد لاہور میں صفائی کا ایک اچھا سسٹم بنا جو سات، آٹھ سال چلا۔ ساتھ ہی انہوں نے تسلیم کیا: ’ترک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد نئے سسٹم میں ہم صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہو سکے۔ کچھ کوتاہی میں اپنے سر بھی لیتا ہوں۔ میں نومبر میں ادارے کا سی ای او بن گیا تھا اور دسمبر میں البراق کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہو رہا تھا تو مجھے کچھ کرنا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ دراصل ترک کمپنی کے ساتھ معاہدے کی مدت 2018 میں ختم ہونی تھی لیکن اسے توسیع دی گئی۔ ’میں نے جو معاہدہ پڑھا اس میں کہیں بھی توسیع کی بات نہیں ہوئی، نہ ہی اس معاہدے میں توسیع کا لفظ کہیں استعمال ہوا۔ پھر بھی اس معاہدے کو دو برس تک چھ، چھ ماہ کی توسیع کرکے چلایا گیا۔ چار بار کی توسیع کا جواز نہیں بنتا لیکن اب جن لوگوں نے توسیع کی  وہ جانیں، نیب جانے اور ایف آئی اے جانے، لیکن مجھ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ جب چار بار توسیع ہوئی تو مجھے بھی پانچویں بار ترک کمپنی کے ساتھ معاہدے میں توسیع کر دینی چاہیے تھی۔‘

عمران نے بتایا کہ دسمبر کے مہینے میں ترکی کی کمپنی نے کام پورا بند کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح شاید وہ ہم پر پانچویں بار توسیع کے لیے دباؤ ڈال سکیں گے۔ ’شروع میں ہم نے سوچا کہ پانچویں بار توسیع کردیتے ہیں۔ دراصل ہم انہیں ڈالرز میں ادائیگی کرتے تھے، اس لیے ہمیں ڈالر کی موجودہ قیمت کے حساب سے دیکھنا تھا کہ انہیں چھ ماہ کی رقم ادا کرنے کے لیے ہمیں کتنی رقم درکار ہو گی؟ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں انہیں چھ ماہ کے چھ ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پھر ہم نے اس کا متبادل سوچا کہ اگر ہم ترکی کی کمپنی کو یہ پیسے نہیں دیتے تو ہمارے پاس پلان بی کیا ہے؟ ترک کمپنی 400 کے قریب گاڑیوں کی مدد سے لاہور کو صاف کرتی تھی اور یہ مشینری 2011 کی آبادی کے حساب سے تھی جبکہ اس وقت لاہور کہیں زیادہ پھیل چکا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ہم یہی گاڑیاں خود خریدیں تو کتنا خرچہ آئے گا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ آج کا لاہور دن کا ساڑھے پانچ ہزار ٹن کوڑا پیدا کرتا ہے اور اسے اٹھانے کے لیے ہمیں 950 گاڑیاں چاہیے۔‘

بقول عمران: ’ہم نے ان گاڑیوں کی قیمت کا تخمینہ لگانے کے لیے مختلف کمپنیوں سے کوٹیشن مانگیں اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ساری مشینری ساڑھے چار ارب روپے کی آئے گی۔ ترک کمپنی کے ساتھ ہمارے معاہدے میں لکھا تھا کہ معاہدے کے اختتام پر کمپنی کی ساری مشینری ہماری ہو جائے گی۔ ہم نے سوچا کہ ہم چھ ارب کمپنی کو دے کر چھ ماہ کی توسیع بھی کریں اور ان کی پرانی دھکے مار مشینری بھی استعمال کریں تو کیوں نہ ہم  چھ ارب روپے میں سے ساڑھے چار ارب کی اپنی گاڑیاں خرید لیں۔ جب تک نئی گاڑیاں نہیں آجاتیں تب تک ہم اسی پرانی مشینری سے کام چلائیں اور باقی ڈیڑھ ارب روپے حکومت کے خزانے میں واپس ڈال دیں۔ ان پیسوں سے حکومت بے شک کرونا کی ویکسین خرید لے یا تعلیم و صحت پر خرچ کر لیں۔ یہ بات حکومت کو سمجھ آگئی۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس ساری مشینری کا اخبار میں اشتہار دیا جاچکا ہے اور اس کا روڈ شو بھی ہوچکا ہے اور جلد یہ مشینری ہمارے پاس ہوگی۔ ان میں 50 رکشے بھی ہوں گے جو اندرون شہر کی ان چھوٹی گلیوں تک پہنچیں گے جہاں بڑی گاڑیاں کچرا اٹھانے نہیں جا سکتیں۔‘

اس سارے معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے ترک کمپنی البراق کے سابق مینیجر آپریشن عمر عزیز سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا: ’ہم لاہور کو زیرو ویسٹ پر لے آئے تھے۔ کمپنی سے معاہدہ ختم ہونے کے بعد ایل ڈبلیو ایم سی لاہور کے کچرے کو سنبھال ہی نہیں سکی کیونکہ ان کے پاس ورکرز نہیں ہیں اور جن سے یہ کام لے رہے ہیں وہ مانیٹرنگ سٹاف تھا جبکہ ہم آپریشنل سٹاف تھے۔‘

عمر کا کہنا تھا کہ البراق سے جب معاہدہ ختم ہوا تو ایل ڈبلیو ایم سی نے کہا تھا کہ تمام ملازمین کو نوکری پر رکھے گا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ انہوں نے نچلے سٹاف کو تو رکھ لیا لیکن منیجیریل سٹاف کو واپس نہیں لیا۔

عمر عزیزنے یہ بھی بتایا کہ ایل ڈبلیو ایم سی میں بہت سے گھوسٹ ملازمین کاغذوں میں بھرتی ہیں اور وہ وہاں سے تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔ ’ہر یو سی کونسل میں 20 سے 25 ملازمین کا سٹاف ہوتا ہے، لیکن آپ کو 15 ملازمین بھی نظر نہیں آئیں گے۔ ایک ورکر کی تنخواہ 18 ہزار روپے ہے۔ اور 200 سے زائد یونین کونسلز ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ یہاں کس حد تک کرپشن ہو رہی ہے۔‘

اس حوالے سے  ایل ڈبلیو ایم سی کے سی ای او عمران علی سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’البراق کمپنی کے 2770 ملازمین معاہدہ ختم ہونے کے بعد فارغ ہوئے۔ ہمیں ڈی سی آفس، عدالت  اور ہمارے بورڈ نے کہا کہ ان تمام ملازمین کو نوکری پر واپس لائیں۔ ہم نے اس حوالے سے اخبار میں اشتہار دیا کہ البراق کے ملازمین اپنی تصدیقی دستاویزات (جو ان کے البراق کے ملازمین ہونے کا ثبوت ہوں) لے کر ہمارے پاس آجائیں۔ اب تک 1800 سے دو ہزار کے قریب ملازمین نوکری پر واپس ہمارے پاس آچکے ہیں۔ اب ہم دوبارہ اخبار میں اشتہار دیں گے تاکہ باقی جو ملازمین بچ گئے ہیں وہ بھی اپنی ضروری دستاویزات کے ساتھ ہم سے رابطہ کریں۔‘

ایل ڈبلیو ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران سلطان نے بتایا: ’ملازمین کا چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے ہم پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ مل کر ایک اینڈرائڈ بیسڈ سسٹم بنا رہے ہیں، جس میں یہ ہوگا کہ جب یہ ورکر سڑک پر آئیں گے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ کون کام کر رہا ہے اور کون نہیں۔ رجسٹر پر حاضری والے طریقے کو بھی ہم سائنٹفک کر رہے ہیں، تاکہ دو نمبریاں بند ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ادارے سے  آٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ ہمیں لاہور کو مکمل صاف رکھنے کے لیے کم از کم 12 ہزار ملازمین چاہیے۔

اس حوالے سے ایل ڈبلیو ایم سی کے ہی ایک سینئیر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ ادارے میں بہت سے ملازمین ایسے بھی بھرتی کیے گئے ہیں جو صرف کاغذوں کی حد تک شعبے کا حصہ ہیں۔ مذکورہ افسر کا کہنا تھا: ’یہاں آٹھ سے نو ہزار سینٹری ورکر ادارے سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ اگر اتنے ملازمین ہیں تو لاہور کے ہر چوک چوراہے پر یہ سینٹری ورکر نظر آنے چاہییں، لیکن نظر نہیں آتے۔ لاہور میں گندگی بڑھنے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔‘

دوسری جانب چند روز قبل لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری نور الامین مینگل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لاہور سے اکٹھا ہونے والے کچرے سے حکومت 100 فیصد بجلی پیدا کرے گی۔

اس حوالے سے جب سی ای او عمران علی سلطان سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’لاہور سے اکٹھا ہونے والا سارا کچرا لکھو ڈیر میں ڈمپ کیا جاتا ہے۔ اس کچرے کا 60 سے 70 فیصد حصہ گرین ویسٹ ہوتا ہے جبکہ اس کچرے سے گلاس، پلاسٹک، ایلومینیم وغیرہ مختلف لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انہیں ری سائیکل کرکے ان سے دیگر اشیا بنائی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’مغربی ممالک میں زیادہ کچرا پیکنگ بیسڈ ہے، جس میں ایلومینیم، پلاسٹک اور ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن میں کاربن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور اسی کاربن کو جلا کر توانائی بنتی ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پہلے لکھو ڈیڑ جا کر اس کچرے کے نمونوں کی جانچ کی جائے کہ ہمارے ہاں پیدا ہونے والا کچرا توانائی بنانے کے لیے بہتر ہے یا کمپوسٹ (کھاد) بنانے کے لیے۔ ہمارے خیال میں لاہور کا کچرا کمپوسٹ بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہے اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان