’انعام دیتے وقت جب استاد نے لاپتہ والد کا نام لیا تو پوتا رو پڑا‘

باجوڑ کے عبدالمطلب کے بیٹے فضل ہادی قریباً چھ سال سے لاپتہ ہیں اور ان کا بیٹا اپنے والد کے انتظار میں بڑا ہو رہا ہے۔

عبدالمطلب کے بیٹے فضل ہادی قریباً چھ سال سے لاپتہ ہیں۔

عبدالمطلب کئی بار حکام سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کی اپیل کر چکے ہیں مگر اب تک ان کا کوئی پتہ نہیں چلا اور ان کا پوتا اپنے والد کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے بڑا ہو رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل سالار زئی کے گاؤں صابرشاہ سے تعلق رکھنے والے فضل ہادی تین ستمبر، 2015 سے لاپتہ ہیں جب انہیں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر روکا گیا تھا۔

یہ کہنا ہے ان کے بھائی آفتاب عزیز کا، جو گیارہویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

باجوڑ سے لاپتہ افراد کی فہرست میں 156 افراد رجسٹرڈ ہیں، جن کا اندراج رواں سال 22 فروری کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کے بعد کیا گیا۔  فضل کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

فضل کا خاندان ان کے انتظار میں قریباً چھ سال سے ایک ایک دن گن رہا ہے۔ ان کے والد عبدالمطلب بتاتے ہیں کہ جب فضل لاپتہ ہوئے تب ان کی شادی کو دو سال ہوئے تھے اور ان کا بیٹا محمد عبداللہ ایک سال کا تھا۔

محمد عبداللہ اب سات سال کے ہو گئے ہیں اور پڑھائی میں بہت لائق ہیں۔ عبدالمطلب نے بتایا: ’پڑھائی میں ایک بار انہوں نے انعام حاصل کیا، تو جب اساتذہ نے ان کے والد کا نام لیا تو محمد عبداللہ رو پڑے۔‘

بیٹے کے منتظر عبدالمطلب قانون جانتے ہیں۔ وہ خود ریٹائرڈ استاد ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے۔ ان کا ایک بیٹا ڈاکٹر اور ایک فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں کام کرتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پختون روایت کے مطابق فضل کو قرآن حفظ کروایا اور پھر انہوں نے دارالعلوم حقانی سے اسلامی علوم کورس بھی کیا۔

اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے وہ اب تک قانون کا ہر وہ دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں جس سے ان کو انصاف کی امید تھی، لیکن جواب کوئی نہیں دے سکا کہ ان کا بیٹا کہاں ہے۔

’اب تک کوئی جواب نہیں آیا‘

2018 میں وہ اپنا کیس جبری گمشدگیوں کی تفتیش کے کمیشن (COIED) کے پاس لے کر گئے جہاں ان کے بیٹے کے کیس کو جبری گمشدگی قرار دے دیا گیا اور ان کو یقین دلایا گیا کہ 15 دن کی اندر ان کے بیٹے کا پتہ چل جائے گا۔

بزرگ والد نے ناامیدی سے بتایا: ’اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’مبینہ طور پر لاپتہ افراد کا پتہ لگانے‘ اور ’ذمہ دار افراد یا تنظیموں پر ذمہ داری عائد کرنے‘ کے مینڈیٹ کے ساتھ مارچ 2011 میں COIED تشکیل دی تھی۔

اگرچہ کمیشن نے متعدد معاملات میں لاپتہ افراد کا پتہ لگایا ہے، مگر فضل کا پتہ اب تک نہیں چل سکا۔

فضل کے بھائی ڈاکٹر فضل المنان نے تین سال پہلے اپنے بھائی کا پتہ جاننے کے لیے حکام کو ایک خط لکھا تھا۔

اس خط میں، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی فورسز نے ان کے بھائی کو ایک چیک پوسٹ پر شک کی بنیاد پر اتارا جس کے بعد سے وہ اب تک لاپتہ ہیں۔

خط میں مزید لکھا ہے کہ ان کے بھائی کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود بھائی کا گریبان پکڑیں گے۔

فوج کا موقف

پاکستانی فوج کے شعبۂ اطلاعاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو میں لاپتہ افراد کے بارے میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا ہے جو ان کی بازیابی کے عمل میں مدد دے رہا ہے۔ 

آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل آصف غفور نے 2019 میں کہا تھا کہ تمام گمشدگیوں کو ایجنسیوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات کچھ لوگ دہشت گردوں کی طرف سے ریاست سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور انہیں بھی لاپتہ افراد کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا