شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی عدالتی اجازت

لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ نواز کے رہنما شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی۔ 

شہباز شریف علاج کے غرض سے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں (اے ایف پی فائل فوٹو)

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی۔ 

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔

وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل رانا عبدالشکور پیش ہوئے اوردرخواست گزار کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کوعدالت نے وزارت داخلہ حکام سے تفصیل لے کر پیش ہونے کی ہدایت کی، کچھ دیر بعد انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’جمعہ کی وجہ سے متعلقہ حکام سے رابطہ نہیں ہو سکا، متعلقہ حکام سے وضاحت لے کر ہی کچھ بتا سکتا ہوں، اگر کوئی جلدی نہیں تو کیس کو عیدالفطر کی چھٹیوں کے بعد رکھ لیا جائے۔ شہباز شریف نے پرائیویٹ ڈاکٹر سے 20 مئی کا وقت لیا ہوا ہے۔ بلیک لسٹ کے علاوہ بھی ایک اور لسٹ ہے، اس کے لیے واضح ہدایات لینے کی ضرورت ہے۔ ای سی ایل سے نام نکالنے کے بعد منی لانڈرنگ کا ریفرنس آنا ممکن ہے، ہو سکتا ہے منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہو۔

عدالت نے شہباز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ شہباز شریف کو کیا جلدی ہے؟

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ کینسر سے متعلق شہباز شریف کے ٹیسٹ ہونا لازم ہیں، برطانیہ پہنچنے سے قبل قطر میں 14 روز قرنطینہ کرنا لازم ہے، کسی بھی پاکستانی کو برطانیہ پہنچنے سے قبل ایس او پیز کے تحت قرنطینہ کرنا لازمی ہے، شہباز شریف کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، اسی لیے یہ معاملہ جلدی کا ہے۔

امجد پرویز نے موقف اختیار کیاکہ عدالتی اطمینان کے لیے ریٹرن ٹکٹ سے متعلق بھی دلائل دے سکتا ہوں۔

جس منی لانڈرنگ کا ذکر کیا گیا ہے اسی الزام میں تو شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔

عدالت نے فوری شہباز شریف کو طلب کیا جس کے بعد وہ ایک گھنٹے میں پیش ہوگئے۔

سرکاری وکیل نے دلائل دیے کہ شہباز شریف نے روٹین کا وقت لے کر دستاویزات لف کی ہیں، ڈاکٹر کی آن لائن اپوائنٹمنٹ کوئی بھی شخص لے سکتا ہے ویسے بھی برطانیہ نے کرونا کی وجہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ شہباز شریف نے کوئی ٹھوس وجہ بطور ثبوت پیش نہیں کی۔ شہباز شریف نے صحت کے میگا پراجیکٹ بنائے ہیں وہ یہاں رہ کر اپنا علاج کروا لیں۔

جس پر امجد پرویز بولے کہ سرکاری وکیل اپنی زبان نہیں بول رہے۔

سرکاری وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا 26 مارچ 2019 کا ای سی ایل سے نام نکالنے کا فیصلہ یہ سمجھا جائے کہ انہیں کھلی چھوٹ دی گئی؟

جسٹس علی باقر نجفی نے قرار دیا کہ ’آپ سے پوچھا تھا کہ شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں ہے یا نہیں؟ ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں نہیں وہ شخص تین بار وزیراعلی رہا، کیا وہ واپس نہیں آئے گا؟ اگر وفاقی حکومت کا خیال ہے کہ شہبازشریف واپس نہیں آئیں گے تو بطور گارنٹی کیا لینا چاہیں گے؟‘

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کو چار ہفتوں میں واپس لانے کی گارنٹی دی تھی لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی درخواست زیر التوا ہے؟ کیا وفاق نے نواز شریف کو دیا گیا ریلیف ختم کرنے کے لیے کوئی درخواست دی؟

سرکاری وکیل نے کہا کہ اسی وجہ سے وقت مانگ رہا ہوں کہ تمام متعلقہ اداروں سے معاونت حاصل کر لی جائےجو شخص گارنٹی دیتا ہے وہ تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہے، شہباز شریف تو شفاف انداز میں عدالت نہیں آئے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے قرار دیاجس گارنٹی کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس کے تین حصے تھے۔

جسٹس علی باقر نجفی نےشہباز شریف سے استفسار کیاکہ آپ کو کیا جلدی ہے جو آپ برطانیہ جانا چاہتے ہیں؟

شہباز شریف نے جواب دیا ’میں کینسر کے مرض سے بچا ہوا ہوں، میں نے لندن میں ڈاکٹر مارٹن سے علاج کروایا۔ جنوری 2003 سے ڈاکٹر مارٹن کو اپنا طبی معائنہ کروا رہا ہوں جب میں جیل میں تھا تو میں نے اپنی تمام بیماریوں سے متعلق بتایا تھا، ٹرائل کورٹ کے حکم پر مجھے میڈیکل کروانے کی اجازت دی گئی۔‘

جسٹس علی باقر نجفی نےاستفسار کیاکہ آپ بیرون ملک ٹیسٹ کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ شہباز شریف نے کہا میں دو بار عدالت کے حکم پر بیرون ملک گیا ہوں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ آپ کی رپورٹس خود بول رہی ہیں، آپ کے وکیل نے بتا دیا ہے آپ صرف اتنا بتائیں کہ آپ کب واپس پاکستان آئیں گے؟ شہباز شریف بولے ’کیا میں دہشت گرد ہوں؟ کیا میں ریاست مخالف ہوں جو میرا نام بلیک لسٹ میں ڈالا گیا ہے؟ میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، میں نے اس قوم کی اربوں روپے کی نقد رقم بچائی؟ مجھے آٹھ ہفتے دیے جائیں تو میں واپس آجاؤں گا۔ میں کبھی بھی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔‘

جسٹس علی باقر نجفی نے استفسارکیا کہ شہباز شریف کوئی ضمانتی مچلکے جمع کروانا چاہتے ہیں؟ امجد پرویز نے جواب دیاکہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں کسی شہری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے کوئی بھی شرط لگانے سے روکا ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے قراردیاکہ شہباز شریف عوامی نمائندے ہیں اور ضمانتی مچلکے کی شرط والی آپشن استعمال نہیں کی جائے گی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کچھ اور کہنا چاہیں گے؟

شہباز شریف نے جواب دیاکہ کرونا لاک ڈاؤن سے ایک روز قبل پاکستان واپس آیا تھا۔ میں بیرون ملک اپنی ماں کے قدم چھو کر واپس آ گیا، میں اسی مٹی کا سپوت ہوں۔ جون 2004 میں جانتا تھا کہ مجھے جنرل مشرف جیل بھیجیں گے پھر بھی واپس آیاتھا۔

جسٹس علی باقر نجفی نےاستفسار کیا کہ کیا آپ اپنے لوگوں کے ساتھ عید نہیں کرنا چاہیں گے؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ اپنوں کے ساتھ عید کرنے سے صحت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

عدالت نے شہباز شریف کی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد سنا دیا گیا جس کے مطابق عدالت نے شہباز شریف کو مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ شہباز شریف آٹھ ہفتوں کے بعد پاکستان واپس آنے کے پابند ہوں گے۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ اور جواب طلب کر لیا۔

سیاسی ردعمل:

شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے پر حکومتی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا ردعمل بھی سامنے آیا۔

ٹویٹر پیغام میں وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کے باہر جانے کے لیے گارنٹی عدالت میں جمع کروائی تھی، اب بجائے اس کے کہ شہباز شریف کو جعلی گارنٹی دینے پر نوٹس کیا جاتا، نواز شریف کو واپس بلایا جاتا، خود شہباز شریف کو باہر بھیجا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون کے ساتھ مذاق ہے، اتنا جلد فیصلہ تو پنچایت میں نہیں ہوتا، اس طرح سے ان کا فرار ہونا بدقسمتی ہوگی، اس سے پہلے وہ نواز شریف کی واپسی کی گارنٹی دے چکے ہیں سوال یہ ہے کہ کہ اس گارنٹی کا کیا بنا؟

فیصلے کے خلاف تمام قانونی راستے اختیار کریں گے، ہمارے نظام عدل کی کمزوریوں کی وزیر اعظم کئی بار نشاندہی کر چکے ہیں، لیکن اپوزیشن اصلاحات پر تیار نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بوسیدہ نظام سے ان کے مفاد وابستہ ہیں۔

ان کے جواب میں مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ شہبازشریف کا نام کبھی بھی ای سی ایل پر نہیں تھا، عمران صاحب نے بلیک لسٹ میں سیاسی مخالفین کے نام شامل کرائے سیاسی انتقام کی بنا پر شہبازشریف کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیاگیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست