لاہور میں غیر ملکی خاتون کا قتل: '36 گھنٹوں میں کیس حل ہوجائےگا'

26 سالہ مائرہ ذوالفقار کی لاش تین مئی کو لاہور میں ڈیفنس کے علاقے سے برآمد ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق وہ بیلجیئم کی شہری ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 36 گھنٹوں میں کیس حل کرلیا جائے گا (فائل تصویر: اے ایف پی)

لاہور میں گذشتہ ہفتے 26 سالہ خاتون کے قتل کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ اگلے 36 گھنٹوں میں یہ کیس حل کرلیا جائے گا۔

مائرہ ذوالفقار نامی خاتون کی لاش تین مئی کو لاہور میں ڈیفنس کے علاقے سے ایک مکان سے برآمد ہوئی تھی۔ مقتولہ کچھ عرصہ قبل لاہور آنے کے بعد ڈیفنس میں اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ کرائے کے مکان میں رہنے لگی تھیں۔

ابتدا میں پولیس نے بتایا تھا کہ خاتون  برطانوی شہری ہیں، تاہم ایس پی تھانہ ڈیفنس بی سدرہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقتولہ کے پاس بیلجیئم کا پاسپورٹ تھا۔

مقتولہ کے پھپھا کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں دو ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

اس کیس کے انویسٹی گیشن افسر تھانہ ڈیفینس بی محمد طارق نے انڈپینڈننٹ اردو کو بتایا کہ ایف آئی آر میں نامزد دونوں ملزمان ظاہر جدون اور سعد امیر نے اپنی  ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے اور پولیس ملزمان کا بیان ریکارڈ نہیں کرسکی ہے۔ ظاہر کا تعلق اسلام آباد سے جبکہ سعد امیر کا تعلق لاہور سے ہے۔

نامزد ملزم ظاہر جدون نے سوشل میڈیا پر اپنی  ضمانت قبل از گرفتاری  کا سٹیٹس بھی پوسٹ کر رکھا ہے، جس کے مطابق انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے 14 روز کی  ضمانت مل گئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا ہے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے پولیس سے پورا تعاون کریں گے۔

دوسری جانب آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پولیس اس وقت اس کیس کی تحقیق ختم کرنے کے بالکل قریب ہے اور اگلے 36 گھنٹوں میں یہ کیس حل ہو جائے گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق مائرہ کے والدین نے پاکستان آنا تھا، تاہم انہیں علم نہیں کہ وہ ابھی تک پہنچے ہیں یا نہیں۔

مقتولہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے پولیس نے کچھ نہیں بتایا، تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ مائرہ کے گلے اور بازو پر گولی کے زخم ہیں جبکہ ان کے ہاتھ اور پاؤں پر بھی زخموں کے نشان ہیں۔

پولیس کے مطابق مبینہ ملزم ظاہر جدون دو سال قبل راولپنڈی میں قتل کے ایک مقدمے میں نامزد تھا جس کے بعد وہ بیرون ملک چلا گیا تھا۔

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ مائرہ کی ان دونوں ملزمان سے دوستی تھی اور دونوں ان سے شادی کے خواہش مند تھے جبکہ مائرہ کے انکار کے سبب انہیں دونوں کی جانب سے دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔

ایف آئی آر میں بھی ان دھمکیوں کا ذکر ہے اور مقتولہ نے اپنے پھپھا کو بتایا تھا کہ دونوں لڑکے انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مائرہ نے ان لڑکوں سے خوفزدہ ہو کر تھانے میں ایک درخواست بھی دے رکھی تھی۔ 20 مارچ کو دی جانے والی اس درخواست کے مطابق ملزم سعد  17 مارچ کی صبح ان کے گھر  آئے اور انہیں اسلحے کے زور پر زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھایا جس کے بعد انہوں نے مائرہ کو اپنی گاڑی میں زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی، تاہم وہ انہیں دھکا دے کر گاڑی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ شور کے سبب لوگ جمع ہونے کی وجہ سے سعد موقع سے فرار ہو گیا۔

ان کا یہ بھی موقف تھا کہ ملزم پہلے بھی انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا ہے اس لیے پولیس نہ صرف ملزم کے خلاف کارروائی کرے بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کرے۔

اس درخواست کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی تفتیش بھی جاری ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہ کی۔

پولیس کے مطابق مائرہ قتل کیس میں نامزد دونوں ملزمان کا پہلے سے کریمنل ریکارڈ موجود ہے۔

تاہم ملزم سعد امیر کے وکیل خواجہ وسیم نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی چھوٹا موٹا لڑائی جھگڑے کا کیس تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے بڑا کوئی کیس ان کے خلاف پہلے کبھی درج نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ سعد کی ضمانت قبل از گرفتاری 22 مئی تک ہے اور وہ خود شامل تفتیش ہوئے ہیں۔

مقتولہ نے واقعے سے دو ہفتے پہلے سعد کے خلاف پولیس میں درخواست دائر کی تھی، جس کے حوالے سے وکیل خواجہ وسیم نے کہا کہ پولیس نے جب درخواست پر تحقیقات کیں تو اس میں لگے الزامات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ مائرہ کے قتل کے وقت سعد اپنے گھر پر موجود تھے، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ظاہر اور سعد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، ہاں البتہ دونوں کی کسی پارٹی پر ملاقات کے دوارن مائرہ کو لے کر تلخ کلامی ہوئی تھی۔

وکیل خواجہ وسیم کے مطابق ظاہر مائرہ سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ راضی نہیں تھیں، اسی وجہ سے ظاہر اور سعد میں جھگڑا ہوا۔

ظاہر جدون کے وکیل قیصر امام نے کہا: 'ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد اور ثبوت ہیں جو ہم وقت آنے پر عدالت میں پیش کریں گے اور اس بنیاد پر ظاہر بے گناہ قرار پائے جائیں گے۔ یہ کیس آف نو ایویڈینس ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ظاہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کروائی ہے جو 20 مئی تک ہے، جس کا مقصد ہے کہ ملزم اپنے علاقے کی متعلقہ عدالت تک پہنچ سکے اور اسے کیس کے درمیان حراست میں نہ لیا جاسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ظاہر اور سعد کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں تھا۔

ظاہر کے خلاف پہلے سے کریمنل ریکارڈ موجود ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی آدمی جو ذرا اثرو رسوخ والا ہو اس کے خلاف کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی چیز سامنے آجاتی ہے۔

’اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے کیس میں اگر کوئی بھی ثبوت موجود ہے تو وہ خاتون ہیں جو اسی گھر میں ساتھ والے کمرے میں موجود تھیں۔

جب قیصر امام سے پوچھا گیا کہ قتل کے وقت ظاہر کہاں تھے تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ معلومات حساس ہیں جن کو وہ صرف عدالت کے سامنے بتائیں گے۔

مائرہ کے ساتھ ان کی دوست اقرا اس گھر میں ان کے ساتھ والے کمرے میں رہائش پزیر تھیں۔

اقرا کو پولیس نے تفتیش کے لیے حراست میں بھی لیا تھا لیکن اب اقرا کہاں ہیں، اس حوالے سے پولیس کچھ بھی بتانے سے گریز کر رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان