سخت گرمی میں کراچی والوں کو پانی پہنچاتے ماشکی

محمد رمضان کراچی کے شاید ان چند ماشکیوں میں سے ہیں جو آج بھی اس پیشے سے جڑے ہوئے ہیں، جس کا مستقبل انہیں ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

بکرے کی کھال سے بنی مشک کاندھے پر لادے محمد رمضان سخت گرمی میں، تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے اور پھر کئی منزلیں چڑھتے ہوئے کراچی کے ایک گھر میں پانی پہنچاتے ہیں۔  

محمد رمضان کراچی کے شاید ان چند ماشکیوں میں سے ہیں جو آج بھی اس پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے گاہکوں میں صرف ایسے علاقے کے شہری آباد ہیں جہاں ٹینکرز جانے سے انکار کر دیتے ہیں یا پھر ان کی جیب مہنگے داموں پانی پینے کی اجازت نہیں دیتی۔

محمد رمضان نے بدلتے زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود کا ایک چھوٹا سا ٹینکر بنا لیا ہے۔ ان کا ٹینکر ٹین کا ہے جو انہوں نے اپنی گدھا گاڑی پر رکھا ہوا ہے۔ دن کے آغاز میں ہی وہ اپنی مشک کے ذریعے اپنے چھوٹے سے ٹینکر کو بھر لیتے ہیں اور پھر گاہکوں کے فون کا انتظار کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جب کوئی گاہک مل جاتا ہے تو اپنی گدھا گاڑی دوڑاتے اس کے محلے میں پہنچ کر ٹین کے ٹینکر سے پانی مشک میں بھرتے ہیں اور پھر مشک کو کاندھے پر لٹکائے گاہک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ محمد رمضان کے اکثر گاہک چوتھی یا پانچویں منزلوں کے رہائشی ہوتے ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر اور کمزور پٹھوں کی وجہ سے محمد رمضان سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ہانپنے لگتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’یہ کام تو مشکل ہے۔ مگر ہم کیا کریں؟ ہم اپنی مزدوری کر رہے ہیں۔ لوگ خود پانی نہیں بھر سکتے تو ہم انہیں پانی پہنچاتے ہیں۔ شاید اسے کے ذریعے اللہ پاک ہمیں ثواب دیں اور ہماری مشکل آسان کر دیں۔‘

معاش اور ثواب کے ملی جلی وجوہات نے آج بھی محمد رمضان کو ایک ناپید ہوتے پیشے سے وابستہ کر رکھا ہے۔ مگر انہیں مستقبل کی فکر بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ٹینکرز والے اور منرل واٹر والے لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچا آتے ہیں۔ اس لیے آنے والے وقتوں میں ماشکیوں کا کام ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

تقریباً دو کروڑ آبادی والے کراچی شہر میں روزانہ کی بنیاد پر 120 کروڑ گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ مگر حکام کے مطابق کراچی کو سرکاری طور پر صرف 58 کروڑ گیلن پانی ہی مل پاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا