’بلوچستان میں کیپ ٹاؤن جیسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ‘

بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے سے کاشت کاروں سمیت عام شہریوں کو بھی مشکلات کاسامنا ہے، اس کے حل کے لیے سولر ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں جبکہ ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے کھٹائی میں پڑے ہیں۔

بلوچستان کی ہنہ جھیل جو  اکثر خشک رہتی ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع نوشکی کے مرکزی بازار میں گذشتہ دنوں برج عزیز خان ڈیم کی تعمیر کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، جہاں لوگوں نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

جہاں ایک طرف بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے اور ماہرین اسے ’تشویش ناک‘ قرار دے رہے ہیں، وہیں لوگ مذکورہ ڈیم کے شدید مخالف ہیں۔

نوشکی میں برج عزیز ڈیم کے خلاف بنائی گئی احتجاجی کمیٹی کے ممبر عبداللہ گورگیج کے مطابق نوشکی کے عوام کے لیے پانی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سراپا احتجاج ہیں۔

عبداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افغانستان کی سرحد سے تھوڑی بہت غیر قانونی تجارت ہوتی تھی، لیکن وہ بھی اب باڑ لگانے سے بند ہوچکی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نوشکی میں اب واحد ذریعہ آمدنی کاشت کاری  ہے، جس کا انحصار ٹیوب ویل اور بارشوں کے پانی پر ہے اور اس کو بھی اب خطرہ لاحق ہے۔

تاہم  جس ڈیم کی وہ مخالفت کر رہے ہیں وہ نوشکی میں نہیں بلکہ ضلع پشین میں ہے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو عبداللہ نے کہا: ’یہ درست ہے کہ برج عزیز ڈیم پشین میں ہے، لیکن یہاں کا پانی افغانستان سے آتا ہے اور ہمارے سرحدی علاقے ڈاک یونین کونسل میں کاشت کاری کا انحصار اسی پانی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ پانی پشین اور دیگر علاقوں سے نکل کر افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور پھر وہاں سے نوشکی آتا ہے، لہذا اگر اس کے راستے میں ڈیم بن جاتا ہے تو یہاں پانی نہیں آئے گا، اس لیے ہم اس کی تعمیر کے  خلاف ہیں۔ ‘

عبداللہ کے بقول: ’احتجاج کا فیصلہ نوشکی کی قبائلی شخصیت آصف شیر جمالدینی کے گھر میں منعقدہ جرگے میں کیا گیا اور ہم گذشتہ تین مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔‘

برج عزیز ڈیم کوئٹہ سے 58 کلومیٹر دور شمال مغرب میں تعمیر کیا جارہا ہے، جس کا منصوبہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں بنا تھا۔

عبداللہ نے بتایا کہ قبائل نہ صرف احتجاج کے تمام ذرائع استعمال کریں گے بلکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے بھی ملاقات کرکے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔

کوئٹہ میں پانی کی صورت حال کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ماہر رزاق خلجی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان کو ہم 18 بیسن میں تقسیم کرتے ہیں، جن میں صرف تین علاقے کینال سے چل رہے ہیں اور باقی تمام صوبہ زیر زمین پانی پر انحصار کرتا ہے۔

رزاق خلجی کے بقول: ’اس میں پشین بیسن کا علاقہ جس میں قلات، منگیچر، مستونگ، کوئٹہ، کچلاک، پشین اور قلعہ عبداللہ شامل ہے۔ یہاں زیر زمین پانی کو خطرناک حد تک نقصان پہنچا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اگر ہم یہاں کی صورت حال کو بڑی تباہی کہیں بھی تو بے جا نہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف زراعت ختم ہوگئی، باغات خشک ہوگئے بلکہ بہت سے لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنی پڑی ہے۔‘

محکمہ زراعت کا واٹر مینیجمنٹ کا شعبہ پانی کے حوالے سے تحقیق کر رہا ہے، جس میں زیر زمین پانی کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اور زیر زمین پانی کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔

رزاق خلجی کے مطابق: ’خشک سالی سے واٹر مینیجمنٹ کے مانیٹرنگ نیٹ ورک کو بھی نقصان پہنچا ہے اور مستونگ، منگیچر، کچلاک اور کوئٹہ میں مانیٹرنگ نیٹ ورک ختم ہوچکے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’گذشتہ سال ہم نے حکومت کو پورے بلوچستان میں پانی کی سطح کو جانچنے کی تجویز دی تھی، جس پر حکومت نے فنڈز جاری کردیے، جس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ‘

رزاق کے بقول: ’اس کام کے دوران نہ صرف پانی کو مانیٹر کیا جائے گا بلکہ صورت حال کا تجزیہ کرکے حکومت کو تجاویز پیش کی جائیں گی جبکہ تحقیق کرنے والوں کو بھی یہ ڈیٹا فراہم کیا جائے گا۔‘

ٹیوب ویلوں کی تنصیب

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے گھریلو استعمال کے علاوہ زراعت کے لیے بھی ٹیوب ویل لگائے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے رزاق خلجی نے بتایا: ’زیر زمین پانی کے حوالے سے بلوچستان میں 1978 میں ایکٹ نافذ کیا گیا تھا، جس میں کسی بھی شخص کو ٹیوب ویل لگانے کے لیے این او سی لینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ضلعی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں، جن کی اجازت کے بغیر ٹیوب ویل لگانا جرم قرار دیا گیا۔ قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔‘

زیر زمین پانی ختم ہونے کے مضمرات 

بلوچستان کا کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ ایک وقت میں انتہائی سرسبز علاقہ تھا اور یہاں کے پھل خصوصاً انگور پورے پاکستان میں مشہور تھے۔

رزاق نے بتایا کہ مستونگ میں پہلے کاریزوں سے کاشت کاری ہوتی تھی، لیکن طویل خشک سالی نے زیر زمین پانی کی سطح کو نقصان پہنچایا تو لوگوں نے باغات کو بچانے کے لیے ٹیوب ویل لگا لیے۔

انہوں نے بتایا کہ وقتی طور پر باغات تو بچ گئے لیکن ریچارج کے لیے توازن برقرار نہ رکھ سکے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی باغات جڑ سے اکھاڑ دیے گئے اور پھر لوگوں نے ان علاقوں سے نقل مکانی شروع کردی۔

سولر ٹیوب ویل 

بلوچستان میں بجلی کی بچت کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون سے واپڈا میں رجسٹرڈ ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام زیر زمین پانی کے حوالے سے خطرات کو مزید بڑھا دے گا۔

رزاق خلجی کے مطابق: ’بلوچستان میں ویسے ہی زمیندار فلڈ ایری گیشن کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں، یہ سلسلہ ان کو مزید مواقعے دے گا، کیونکہ اب بجلی بند نہیں ہوگی اور پانی کا بے دریغ استعمال ہوگا۔‘

 وہ مزید بتاتے ہیں: ’سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب سے زیر زمین پانی پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ ہمیں کم پانی والی فصلیں کاشت اور درخت لگانے ہوں گے، جس کے لیے تحقیق ہو رہی ہے اور اس حوالے سے آسٹریلیا کی حکومت کے تعاون سے بھی کچھ منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ‘

ڈیم کیوں ضروری ہیں؟

دنیا بھر میں ڈیموں کے حوالے سے تحقیق کا کام جاری ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ سٹوریج اور زیر زمین پانی کے لیے کتنے ضروری ہیں۔

رزاق خلجی نے بتایا کہ دنیا میں اب زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیموں کو بہتر تصور نہیں کیا جاتا۔ ان کے بقول ماہرین اب براہ راست ریچارج کو استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، جو فائدہ مند اور بروقت اقدام ہے۔

انہوں نے کہا: ’بلوچستان کو ڈیموں کو ضرورت نہیں ہے، تاہم ان کو ہم سٹوریج کے  لیے استعمال کرسکتے ہیں۔‘

پانی کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

رزاق خلجی کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ اس پر سنجیدگی سے کام کرے اور اسے ایمرجنسی کی صورت حال کی طرح دیکھے۔ ملک میں موجود ذرائع کے علاوہ وہ ممالک جو اس پر فنڈنگ کرتے ہیں، ان کی بھی مدد لی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر طاہر اقبال نے بھی بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح کے خطرناک حد تک کم ہونے کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔

طاہر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا:  ’جس طریقے سے بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح گررہی ہے، اس سے یہاں بھی کیپ ٹاؤن والی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا: ’کبھی کوئٹہ میں سردیوں کے موسم میں اتنی بارش اور برفباری ہوتی تھی  کہ لوگ ہفتوں گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ بارشیں کم ہوگئی ہیں۔ شہروں میں آبادی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب ٹیوب ویلوں کی تنصیب بے تحاشا ہورہی ہے، جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ‘

طاہر اقبال کے مطابق فوری طور پر یہاں قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیلے ایکشن ڈیم بناکر ہم سمندر کی نذر ہونے والے پانی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، جو زیر زمین پانی کو بھی ریچارج کرے گا۔‘

 

طاہر بلوچستان میں ڈیموں کی تعمیر کو کارآمد سمجھتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں کوئی دریا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپن کاریز ڈیم، ہنہ جھیل جو مصنوعی ہے، وہاں اس طرح کے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان بھر میں پہاڑوں کے باعث ڈیلےایکشن ڈیمز اور چیک ڈیمز موزوں ہیں، جن کے ذریعے ہم بارشوں کے پانی کو محفوظ کرسکتے ہیں، جس پر لاگت بھی کم آئے گی اور پانی بھی ذخیرہ ہوجائے گا۔

طاہر کا ماننا ہے کہ حد سے زیادہ زیر زمین پانی کو نکالا جائے تو وہ بھاری ہوجاتا ہے اور اس میں نمک بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ’اس وقت اگر ہم دیکھیں تو کوئٹہ میں ہمیں معدے کے مریض زیادہ نظر آئیں گے، جس کی ایک وجہ پانی کی تبدیلی بھی ہے۔‘

طویل خشک سالی اور زمین کا بیٹھ جانا

بلوچستان میں ایک طویل خشک سالی کا دور رہا ہے، تاہم کچھ عرصے  سے یہاں بارشیں ہورہی ہیں، جس سے زمین بیٹھنا شروع ہوچکی ہے۔

طاہر اقبال نے اس حوالے سے بتایا:  ’پانی کی کمی سے زمین کے نیچے کا حصہ خالی ہوجاتا ہے اور جب دوبارہ بارش ہوجاتی ہے تو وہ بیٹھ جاتا ہے، جس کو ہم نے کوئٹہ اور مستونگ کے علاقے میں دیکھا ہے، جہاں زمین دھنس رہی ہے۔‘

انگریز کس چیز کا ادراک رکھتے تھے؟

بلوچستان میں بہت سے ایسی چیزیں اب بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے دور میں بنائی گئیں، جن میں ریلوے لائن اور پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیمز بھی شامل ہیں۔

طاہر بھی اس بات کے معترف ہیں کہ انگریزوں کو مستقبل کی منصوبہ بندی اچھی طریقے سے آتی تھی۔ ان کو ادراک تھا کہ کبھی کوئٹہ میں آبادی بڑھ جائے گی اور پانی کی قلت پیدا ہوجائے گی، اس لیے انہوں نے ڈیمز بنانے کےلیے جگہوں کی نشاندہی کی تھی۔

بلوچستان میں بند خوشدل خان اور برج عزیز خان ڈیم  بھی انگریز کے دور میں انجینیئرز نے تجویز کیے تھے، جن پر اب کام شروع کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔

طاہر تجویز کرتے ہیں کہ پانی کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنےکی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف پانی کی بچت کے لیے قوانین بنائے بلکہ ڈیلے ایکشن ڈیمز بھی تعمیر کرے تاکہ بارشوں کا پانی ضائع نہ ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ٹیوب ویلوں کی بے تحاشا تنصیب کو روکنے کے ساتھ لوگوں کو پانی کے مناسب استعمال سے اۤگاہی دینے کے لیے سیمینار اور دیگر پروگرامز بھی منعقد کیے جانے چاہییں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات