گوانتانامو کے معمر ترین پاکستانی قیدی کی رہائی منظور

گوانتانامو میں 16 سال سے قید 73 سالہ سیف اللہ پراچہ کی وکیل کے مطابق نومبر میں امریکی نظر ثانی بورڈ کے سامنے سماعت کے بعد انہیں القاعدہ کی مالی معاونت کے الزام سے بری کر دیا گیا ہے۔

گوانتانامو بے میں قید پاکستانی سیف اللہ پراچہ کی آئی سی آر سی کی جانب سے لی گئی اور وکیل ڈیوڈ ایچ ریمیز کی جانب سے فراہم کردہ تصویر (اے پی)

کیوبا میں گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز میں 16 برس سے قید معمر ترین قیدی سیف اللہ پراچہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی رہائی کی منظوری دے دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ سیف اللہ پراچہ کو عسکری تنظیم القاعدہ سے تعلق کے شبے میں پکڑا گیا تھا مگر ان پر کبھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

امریکی نظر ثانی بورڈ میں سماعت کے دوران نومبر میں پاکستانی قیدی کی نمائندگی کرنے والی ان کی وکیل شلبی سولیون بینس نے کہا ہے کہ بورڈ نے انہیں دو دوسرے قیدیوں سمیت الزامات سے بری کر دیا ہے۔

بینس نے کہا ہے کہ معمول کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے نوٹیفکیشن میں فیصلے کی تفصیل کے ساتھ وجہ نہیں بتائی گئی اور صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ پراچہ امریکہ کے لیے ’اب مزید خطرہ نہیں رہے۔‘

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی رہائی ناگزیر ہو گی لیکن اس سے پہلے امریکی حکومت ان کی پاکستان واپسی کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کرے، یہ ایک اہم قدم ہے۔

واضح رہے کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ گوانتانامو بے کا حراستی مرکز بند کرنے کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ وہ کارروائی ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روک دی تھی۔

سیف اللہ پراچہ کی وکیل کہتی ہے کہ ان کے خیال میں وہ اگلے کچھ مہنیوں میں پاکستان واپس پہنچ جائیں گے۔ وکیل کے بقول: ’پاکستانی انہیں (پراچہ کو) واپس لینا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع نے پراچہ کی رہائی کے معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ماضی میں امریکہ میں رہنے والے سیف اللہ پراچہ نیو یارک شہر میں جائیداد کے مالک اور پاکستان میں دولت مند کاروباری شخصیت تھے۔ حکام کا کہنا ہے پراچہ القاعدہ کے ’سہولت کار‘ تھے جنہوں نے نائن الیون کے منصوبے میں دو سازشیوں کی مالی مدد کی تھی۔ تاہم پراچہ کہتے ہیں کہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ جن لوگوں کی انہوں نے مدد کی ان کا تعلق القاعدہ کے ساتھ تھا۔ وہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بھی تردید کر چکے ہیں۔

امریکہ نے پراچہ کو 2003 میں تھائی لینڈ سے پکڑا تھا جس کے بعد انہیں ستمبر 2004 سے گوانتانامو بے میں رکھا گیا ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ وہ عالمی جنگی قوانین کے تحت قیدیوں کو کسی الزام کے بغیر قید میں رکھ سکتا ہے۔

شوگر اور دل کے مرض سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا پراچہ نومبر میں آٹھ مرتبہ نظرثانی بورڈ کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ یہ بورڈ سابق امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے قائم کیا تھا اور اس کا مقصد ایسے قیدیوں کی رہائی کو روکنا تھا جن کے بارے میں حکام کا ماننا تھا کہ وہ گوانتانو بے سے رہائی کے بعد امریکہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

اس وقت ان کے وکیل نے کہا تھا کہ بائیڈن کے الیکشن، سیف اللہ کی صحت اور ان کے بیٹے عزیر پر مقدمے میں قانونی کارروائی میں پیشرفت کے پیش نظر امید ہے کہ انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

عزیر پراچہ کو 2005 میں نیو یارک میں امریکی وفاقی عدالت نے دہشت گردی میں معاونت پر سزا سنائی تھی۔ انہیں یہ سزا جزوی طور پر ان شہادتوں کی بنیاد پر سنائی جو گوانتانامو بے میں قید گواہوں نے دی تھیں ۔ امریکہ نے ان کے والد کو قید کرنے کے جواز کے لیے انہی شہادتوں پر انحصار کیا تھا۔

لیکن مارچ 2020 میں جب ایک جج نے گواہوں کے ان بیانات کو مسترد کر دیا اور حکومت نے نیا مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تو عزیر پراچہ کو رہا کر کے پاکستان واپس بھجوا دیا گیا۔

سیف اللہ پراچہ ان 40 قیدیوں میں شامل ہیں جو اب تک گوانتانامو بے میں بند ہیں۔ 2003 میں قیدیوں کی تعداد تقریباً سات سو سے کم ہو کر اب 40 رہ گئی تھی۔

پراچہ کے معاملے میں نظرثانی بورڈ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد تقریباً نو قیدی ایسے ہیں جنہیں الزامات سے بری کر کے ان کی رہائی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا