سندھ: کچے میں چار دہائیوں سے ڈاکو راج کیوں قائم ہے؟

شمالی سندھ کے اضلاع جن کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے، وہاں گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکو راج قائم ہے۔

دریا سندھ پر کچے کا علاقہ (امر گرڑو)

رواں ہفتے صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کی تحصیل خان پور میں ڈاکوؤں سے مقابلے میں دو پولیس اہلکار اور پولیس کے فوٹوگرافر سمیت 11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔  

شکارپور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) سکھر کامران فضل نے  پیر کو کہا کہ ڈاکوؤں نے سندھ کے مختلف علاقوں سے 12 افراد کو اغوا کرکے گڑھی تیغو کے علاقے میں یرغمال بنا کر رکھا تھا، جن کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن کیا گیا۔

ان کے بقول آپریشن کے دوران چھ مغوی بازیاب اور تین اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا اور پولیس فائرنگ سے آٹھ ڈاکو ہلاک اور 12 زخمی ہوئے۔ 

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ ڈاکوؤں کی گولیاں پولیس کی بکتربند گاڑی کے آرپار ہو گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس اینٹی آرمرڈ اسلحہ ہے۔  

شمالی سندھ کے ضلع شکارپور میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تواتر سے رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ شمالی سندھ کے اضلاع جن کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے، وہاں گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکو راج قائم ہے۔

شکارپور کے مقامی صحافی وحید پھلپوٹو کے مطابق ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار ہیں جن کے سامنے بلٹ پروف بکتربند گاڑیاں بھی ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان ڈاکوؤں کے خلاف سندھ پولیس نے کئی بار آپریشن کیے اور ڈاکوؤں سے مقابلے میں کئی پولیس افسران ہلاک بھی ہوئے۔ 

یہ جاننے کے لیے کہ ڈاکوؤں کی گولیاں بلٹ پروف بکتربند گاڑی کے آرپار کیوں گزرگئی اور بغیر تیاری کے پولیس کو خطرناک اور جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیوں شروع کیا گیا، جب ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب سے رابطہ کیا گیا تو  انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔  

دوسری جانب سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کا جلد ہی مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے بتایا: ’سندھ حکومت نے تازہ واقعے کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا ہے، جو تاحال جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تمام ڈاکوؤں کا خاتمہ نہ ہو جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز والے واقعے کے بعد ’پولیس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے جس سے پوری امید ہے کہ ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔‘  

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکو جنرل ضیاء الحق کے دور میں امن و امان خراب کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے تھے، مگر کچے میں پانی آجانے کی وجہ سے ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن نہیں ہو سکتے ہیں۔  

جب ان سے پوچھا گیا کہ شمالی سندھ کے لوگ الزام عائد کرتے ہیں کہ حکمران جماعت پی پی پی کے کچھ رہنما ان ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہوتا تو سردار تیغو خان تیغانی گرفتار نہ ہوتا۔‘ 

 

واضح رہے کہ ایس ایس پی شکارپور امیر سعود مگسی نے شکارپور کے بااثر قبائلی سردار تیغو خان تیغانی کو ان کے دو بیٹوں سمیت کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ 

مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیر کی شام کو امیر سعود مگسی نے کہا کہ ’گڑھی تیغو کو پولیس مقابلے کے بعد اتوار کو شکارپور کے ناپرکوٹ تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔‘  

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی ایف آئی آر میں اقتدام قتل کے ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات بھی شامل ہے اور ایف آئی آر میں تیغو خان تیغانی کو نامزد کیا گیا کہ انہوں نے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کی ہے۔  

کچا کیا ہے اور یہ علاقہ کیوں ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے؟ 

شہری لوگ عام طور پر کچے کا علاقہ ان علاقوں کو تصور کرتے ہیں، جہاں ان کے بقول پکے راستے نہ ہو، مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔  

دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر مٹی کی موٹی دیواروں جیسے بڑے بند بندھے ہوئے ہیں، تاکہ جب دریا میں تغیانی ہو تو دریا کا پانی باہر نکل کر سیلاب کا سبب نہ بنے۔ دیوار نما بندوں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں زیادہ چوڑا تو کہیں کم۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں کناروں پر موجود بندوں کے درمیاں کہیں 22 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، جیسے دریا سندھ کے دائیں جانب موجود شمالی سندھ کے ضلع شکارپور کی تحصیل خان پور اور دریا کے بائیں جانب سکھر کی تحصیل پنوعاقل سے لگنے والے کنارے تک کا فاصلہ 22 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اور کہیں دریا کے دونوں بندوں کے درمیان کا فاصلہ فقط دو کلومیٹر ہے، جیسے سیہون کے قریب لکی شاہ صدر کے مقام پر ہے۔  

 دریا سندھ کے دونوں کناروں پر موجود دیوار نما ان بندوں کے درمیان والے علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ 

اگر پنجاب کی جانب سے سندھ میں داخل ہوں تو دریا سندھ کے بائیں یا مشرقی جانب سندھ کے اضلاع بشمول گھوٹکی، سکھر، خیرپور، نوشہروفیروز، نواب شاہ، حیدرآباد اور سجاول لگتے ہیں۔ جبکہ دریا کے دائیں یا مغرب کی جانب کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ، دادو، جامشورو اور ٹھٹھہ واقع ہیں۔   

موسم سرما میں سخت گرمی کے باعث پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود گلیشیئر پگھلنے اور بعد میں جون اور جولائی میں مون سون بارشیں کے باعث دریا سندھ میں طغیانی آ جاتی ہے اور دریا کے دونوں کناروں پر موجود بندوں کے درمیاں دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھر جاتی ہے۔ مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔ اس علاقے میں ہرسال سیلاب کی صورت میں آنے والے پانی اور دریا کے ساتھ آنی والی ریت کے باعث یہ علاقہ انتہائی زرخیز سمجھا جاتا ہے۔

کسی دور میں کچے کے علاقے میں بڑے پیمانے پر دریائی جنگلات ہوا کرتے تھے جو اب کم ہو گئے ہیں۔ دریا میں طغیانی ختم ہونے کے بعد کچے میں کئی جگہوں پر جزیرے بن جاتے ہیں۔ 

ہر سال سیلاب آنے اور راستے نہ ہونے کی صورت میں کچے کے اندر تک جانا عام انسان کے بس کی بات نہیں، اس لیے سندھ میں ڈاکو کچے کو قدرتی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ 

کچے میں دریا کا مفت پانی اور زرخیز زمین، جہاں فصل کے لیے نہ کھاد اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت ہوتی ہے، ایسی اربوں روپوں کی آمدن والی لاکھوں ایکڑ انتہائی زرخیز زمین کے علاوہ دریائی مچھلی سے بھی کروڑوں روپوں کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دریائی جنگل کی قیمتی لکڑی بھی ہوتی ہے۔

مگر ان سب کا مالک بااثر اور طاقت ور وڈیرا اور جاگیردار ہوتا ہے جو ان ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتا ہے تاکہ اس علاقے میں باہر کا کوئی آدمی نہ آ سکے۔ یہ لوگ حکومت سے اونے پونے مچھلی کے شکار کا لائسنس لے کر کروڑؤں کماتے ہیں۔ اس لیے وہاں رہنے والے لوگوں کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں کے مقامی لوگ غربت کے باعث ہتھیار اٹھا کر ڈاکو بن جاتے ہیں۔  

 سندھ میں ڈاکو راج کب اور کیوں قائم کیا گیا؟  

سندھ میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف سندھ میں چلنے والی موومنٹ فار دا ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) یعنی تحریک بحالی جمہوریت کی کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے ،ہإ ایک سیاسی قوت بنانے کا سوچا اور ایک سازش کے تحت ڈاکو متعارف کرائے گئے اور انہیں کچے میں چھپنے کا کہا گیا اور بعد میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر کچے میں موجود بڑے رقبے پر جنگلات کو کاٹ کر زمینیں سندھ کے 20 جاگیردار گھرانوں میں بانٹی گئیں، تاکہ وہ زراعت کا استعمال کر کے طاقتور بن سکیں اور انہیں وقت آنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابل کھڑا کیا جا سکے۔

یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں وہی جاگیردار گھرانے پی پی پی میں شمال ہو گئے۔ مگر تین دہائیاں گزرنے کے باوجود شمالی سندھ میں دریا سے لگنے والے اضلاع میں تاحال ڈاکو راج قائم ہے۔   

شاہ عبدالطیف یونیورسٹی، خیرپور کے استاد پروفیسر امداد حسین سہتو کی 2005 میں ’ڈیکڈ آف ڈیکوئٹس‘ نامی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کلاشنکوف پہلے سندھ کے ڈاکوؤں نے استعمال کی اور بعد میں پولیس کے پاس پہنچی اور کلاشنکوف ملنے کے بعد ڈاکو طاقتور بن گئے اور جرم کرنے میں آسانی ہوگئی، جبکہ پولیس اور دیگر فورسز سے لڑنے کے لیے ڈاکوؤں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیار بھی خرید لیے تھے۔

تحقیق کے مطابق: ’سندھ کے ڈاکو جدید ہتھیار افغان پناہ گزینوں سے خریدتے تھے، یا پھر سمگلروں، یا بلوچستان لیویز فورس (قبائلی پولیس) یا سندھ پولیس کے کرپٹ افسران سے خریدتے تھے جو انہیں سرکاری اسلحہ بیچتے تھے، کیونکہ ڈاکو ہتھیاروں کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔‘ 

حالیہ سالوں میں فیس بک پر چلنے والی تصاویر میں دیکھا گیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے پاس کلاشنکوف اور دیگر ہیوی اسلحے کے ساتھ راکٹ لانچر، اینٹی ائیر کرافٹ گن سمیت دیگر جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔ 

ایس ایس پی سکھر عرفان سموں پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں فرائض کے دوران کئی بار ماضی کے بدنام زمانہ ڈاکو چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے ساتھ شمالی سندھ میں کئی سالوں سے کام کررہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عرفان سموں نے بتایا کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے پاس آر آر 75 جیسے جدید ہتھیاروں کے ساتھ مارٹر جسے ڈاکو اپنی زبان میں ہشٹڈو کے نام سے پکارتے ہیں، اور 12 اعشاریہ سات اور 12 اعشاریہ 14 بور کی گنز ہیں۔ ’جبکہ پولیس کے پاس جی تھری اور ایس این گی گن ہیں، جن کا ڈاکوؤں کے پاس موجود جدید اسحلے سے مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس کے علاوہ پولیس کے پاس جو بکتربند گاڑیاں تھیں وہ بی- سکس ٹائپ کی تھیں، جن کے لیے کہا گیا کہ یہ صرف لوگوں کے لانے اور لے جانے لیے استمال ہوتی ہیں، یہ فائٹر بکتربند گاڑی نہیں، جس کے بعد ڈی سیون ٹائپ کی گاڑی ٹیکسلا سے منگوائی گئی، مگر ڈاکوؤں کے جدید ہتھیاروں سے اس گاڑی کا حال بھی آپ نے کل دیکھا، کہ گولیاں آرپار ہو گئیں۔‘

پروفیسر امداد حسین سہتو کی تحقیق کے مطابق سندھ میں 1984 سے 1994 کا عشرہ ’ڈاکوؤں کی دہائی‘ کے طور پر مشہور تھا۔ اس کے دوران دن دہاڑے لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان  کی وارداتیں عام تھیں۔ تحقیق کے مطابق اس عشرے میں ڈاکوؤں نے سندھ میں 11 ہزار 436 افراد کو اغوا کر کے ان سے تقریباً تین ارب روپے کا تاوان وصول کیا۔ واضح رہے کہ اس عشرے کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت 13 پاکستانی روپے سے 30 روپے تک کے درمیان تھی۔ 

یاد رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں سے پنجاب اور دیگر صوبوں کی طرف جانے والی نیشنل ہائی وی سندھ کے ان اضلاع کے درمیان سے گزرتی ہے جہاں ڈاکو راج قائم تھا۔

شمالی سندھ کے ان اضلاع میں ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے، جس کے بعد اس علاقے میں شام ڈھلنے کے بعد سفر کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس وقت پولیس اور رینجرز شام کے بعد تمام مسافر گاڑیوں اور ٹرکوں کو ایک مقام پر روک لیتی تھی۔ جب بہت سی گاڑیاں جمع ہو جاتی تھیں، تو انہیں پولیس اور رینجزر کی لاتعداد موبائلوں کے کانوائے میں سندھ کے ان اضلاع سے گزار کر پنجاب تک لے جایا جاتا تھا تاکہ ڈاکوؤں کو لوٹ مار سے بچا جائے۔ 

اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور ساہوکاروں کو بھتے کی پرچی بھیجتے تھے، نہ دینے پر ان کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ اغوا برائے تاوان کے ساتھ لوٹ مار میں ملوث تھے۔ ماضی میں گھوٹکی، جیکب آباد، سکھر، شکارپور، لاڑکانہ، قمبر- شہدادکوٹ، خیرپور اور دادو کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکوؤں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث پچھلے کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندووں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہو گئی ہے۔ 

آخرکار 1992 میں پاکستان آرمی نے ’آپریشن بلیو فاکس‘ نامے کلین اپ آپریشن شروع کیا جو دو سالوں تک جاری رہا۔ اس آپریشن میں کئی ڈاکو مارے گئے اور بڑی تعداد میں ڈاکو روپوش ہو گئے، مگر ڈاکو راج کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔  

متعدد آپریشنز کے باوجود ڈاکو راج کا خاتمہ کیوں نہیں ہو سکا؟ 

16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد پاکستان فوج نے شمالی پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب کیا۔ اس کے بعد بھتہ خوری، ٹارگٹ کلینگ اور امن امان کی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کراچی آپریشن کے ساتھ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف بھی آپریشن شروع کیا گیا۔  

اس آپریشن کے دوران جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور کے کچے میں رہنے والا چھوٹو گینگ بھی گرفتار ہوا۔ اس آپریشن میں پنجاب پولیس کے 16 سو اہلکاروں نے حصہ لیا مگر اس کے باوجود آپریشن ناکام رہا تھا۔

بعد میں پاکستان فوج کو اس آپریشن میں شامل کیا گیا اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے جس کے بعد گینگ کو پکڑا گیا۔ 

شمالی سندھ میں بھی ڈاکوؤں کے خلاف کئی آپریشن ہوئے، کئی گروہوں کا خاتمہ کیا گیا مگر اس کے باوجود شمالی سندھ میں ابھی تک ڈاکو راج قائم ہے۔ 

ڈاکوؤں پر بڑے عرصے سے رپورٹ کرنے والے سندھی اخبار سے وابستہ سکھر کے صحافی ممتاز بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں پرو چانڈیو، محب جسکانی، صدورو شیخ، محب شیدی، صادو ناریجو، نظرو ناریجو، نادر جسکانی، میجر کھوسو، کرنل کھوسو، کمانڈو شیخ، کمال فقیر ڈاکوں میں بڑے نام سجھتے جاتے تھے، جن میں کئی ڈاکوؤں پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ 

ان کے مطابق: ’مگر اب ڈاکو اپنی برادری کے نام سے جانے جاتے ہیں، جیسے مصرانی برادری کے ڈاکو یا شر برادری کے ڈاکو۔‘  

جب ان سے پوچھا گیا کہ بڑے عرصے سے ڈاکو خاموش تھے تو اب اچانک کیوں ظاہر ہو گئے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب کبھی سندھ پولیس کی ہائی کمان کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، تو ڈاکو آ جاتے ہیں جن کو جواز بنا کر پولیس کے اعلیٰ افسران کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر مقامی بااثر وڈیرے کسی مقصد کے لیے ڈاکوؤں کو دوبارہ سرگرم کر دیتے ہیں۔‘  

ممتاز بخاری نے مزید کہا: ’2017 میں جب اپیکس کمیٹیاں قائم تھیں، تب اسی پولیس نے ڈاکوؤں پر مکمل طور پر کنٹرول کیا ہوا تھا، اور اس وقت تین سالوں میں کوئی ایک بھی بندہ اغوا نہیں ہوا تھا۔ مگر اب یہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔‘

ممتاز بخاری کے مطابق کچے کے مختلف علاقے بشمول شاہ بیلو، باگڑجی بیلو، راؤنتی، شریف پور، الف کچو، ناگ واہ، گبلو، سدھوجا، لُڈڑ یا گیمڑو کا کچا اور پنوعاقل کا کچا بھی ڈاکوؤں کی پناہ گاہ ہیں۔ 

شمالی سندھ میں ’ہنی ٹریپ کڈنیپنگ‘ ایک نیا ٹرینڈ 

حالیہ سالوں میں کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا برائے تاوان کے لیے ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے، جسے ’ہنی ٹریپ کڈنیپنگ‘ کے نام سے جانا جانا ہے۔ یہ طریقہ دنیا بھر میں کسی کو اغوا کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے۔  

اس طریقے میں مرد ڈاکو کسی کو بھی فون کال کر کے خاتون کی آواز میں بات کرنے کے بعد دوستی کرتے ہیں، بعد میں انہیں ملاقات کے لیے کسی مخصوص جگہ بلا کر اغوا کر لیا جاتا ہے۔  

کچھ عرصہ قبل سندھی زبان کے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایک مونچھوں والے ڈاکو کو خاتون کی صاف آواز میں بات کرتے دیکھا گیا۔ 

خاتون کی آواز کی کشش پر کراچی، پنجاب اور خیبر پختوخوا سے بھی لوگ آکر ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں۔ سکھر پولیس کے مطابق گذشتہ دو سالوں کے دوران شمالی سندھ کے مختلف اضلاع میں تین سو سے زائد لوگ خاتون کی آواز سن کر اغوا ہوئے۔

ان میں 50 سے زائد لوگوں کو پولیس نے بازیاب کرایا اور کئی افراد کو ’خاتون‘ سے ملنے سے پہلے ہی بچا لیا گیا۔  

سندھ سے ڈاکو راج کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟  

ایس ایس پی سکھر عرفان سموں کے مطابق پنجاب کے رحیم یار خان اور راجن پور کے ساتھ شمالی سندھ کے سات، آٹھ اضلاع میں آنے والا کچا آپس میں جڑا ہوا ہے اور وہاں موجود ڈاکوؤں کے گروہوں کا آپس میں تعاون بھی ہے۔

’ہم اگر شکارپور میں آپریشن شروع کرتے ہیں تو وہاں کے ڈاکو قریبی ضلعے کے کچے میں جا کر وہاں موجود کسی اور ڈاکو گروہ کی پناہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کئی بار آپریشن ہونے کے باجود ڈاکوؤں کا خاتمہ نہ ہو سکا ہے۔‘  

عرفان سموں کے مطابق کچے میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں جانا مشکل ہے۔ ’جب تک پنجاب اور سندھ کے شمالی اضلاع میں بیک وقت آپریشن نہیں کیا جاتا، ڈاکو راج کا خاتمہ ممکن نہیں، اس کے علاوہ کچے میں رہنے والے لوگوں کو بنیادی سہولیتا دینے کے ساتھ دریا پر پل بنائے جائیں تاکہ کچے کے لوگ آسانی سے آ جا سکیں۔‘ 

ان کے مطابق کچے میں کئی سالوں سے قبائلی جھگڑے بھی جاری ہیں، اس لیے بھی وہاں کے لوگ ہتھیار بند ہیں، حکومت وہاں جاری قبائلی جھگڑوں کا خاتمہ کروائے تاکہ وہاں کے لوگوں کو ہتھیار چھوڑنے کو کہا جا سکے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان