خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت اور اساتذہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ وہ حکومت کو جامعات میں بچت کے لیے مفید اقدامات کرنے میں مدد فراہم کریں گے اور اسی تناظر میں اساتدہ نے حکومت کو 28 نکات بھی پیش کیے ہیں۔
یہ فیصلہ صوبائی حکومت اور اساتذہ کے درمیان مذاکرات کے تنیجے میں ہوا ہے جس کے بعد اساتذہ نے احتجاج ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
پشاور میں پاکستانی جامعات کی مرکزی فیڈریشن (فپواسا) کے صوبائی چیپٹر کی پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اساتذہ نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے صوبائی حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے اور اگر اس دوران ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا جائے گا۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج کی دھمکیوں سے دباؤ میں نہیں آئے گی اور جرگے کے ذریعے صرف جائز مطالبات پر ہی بات کرے گی۔
احتجاج کرنے والے اساتذہ بچت کرنے میں کیسے مدد کریں گے؟
اس موضوع پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے فپواسا کے مرکزی نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر فضل ناصر سے سوال کیا جو حالیہ احتجاج کی قیادت کرتے رہے ہیں کہ وہ کس طرح یونی ورسٹی کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی لاسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کئی ماہ قبل انہوں نے سنڈیکیٹ کو 28 نکات پر مبنی تجاویز پیش کی تھیں جنہیں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے خلاف توقع ان ہی کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
پروفیسر فضل ناصر نے کہا کہ اگر ان کے بتائے ہوئے مسائل کی بروقت نشاندہی کرکے ان کا حل نہیں ڈھونڈا گیا تو ملکی جامعات، طلبہ اور تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ماضی میں 25 فیصد مالی پیداوار جامعات کی ذمہ داری ہوتی تھی جب کہ باقی کے 75 فیصد وفاق خرچ کرتی تھی۔ اس وجہ سے تعلیم سستی اور طلبہ پر فیس کا بوجھ کم تھا۔ اب 75 فیصد جامعات کی ذمہ داری ہے اور 25 فیصد وفاق خرچ کرتی ہے۔ اور تو اور ملکی بجٹ کے کل حجم میں پچھلے چار سال سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن تعلیم کا بجٹ جوں کا توں یعنی 63 سے 65 فیصد کے درمیان رہا ہے۔‘
جامعات میں بچت کے لیے تجویز کردہ 28 نکات
ڈاکٹر فضل ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان 28 نکات میں جامعات کے اخراجات کم کرنے کی تمام تر تفصیل موجود ہے۔
1- سرکاری کاموں کے لیے کیمپس میں موجود افسران کی گاڑیوں کے ایندھن کا ماہانہ خرچ 25 سے 30 ہزار ہے اور مرمت وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اس کی نگرانی کرکے ان اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
2- یونیورسٹیز کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، تاکہ کاغذات کا استعمال کم سے کم ہو اور جامعات میں روابط بھی تیز ہوجائیں۔
3- ان نکات میں وسائل کو بروئے کار لانے اور آمدن بڑھانے کے لیے بھی تجاویز ہیں۔
4- غیر ترقیاتی اخراجات کے بجٹ میں کمی لائی جائے۔ یونیورسٹیز میں سیکڑوں غیر مجاز دفاتر میں ائیر کنڈیشنز لگے ہیں جن کی ان کو اجازت ہی نہیں ان کا خرچ کم کیا جا سکتا ہے۔
5- حیات آباد میں حکومت کی مدد سے 20 کنال کی زمین پر فلیٹس تعمیر کرکے مکانات کے لیے غیر ضروری کرایوں سے بچا جا سکتا ہے۔
6- ایلومینائی ایسوسی ایشنز کو فعال کیا جائے تاکہ فنڈز جمع کیے جا سکیں۔
7- طلبہ، ملازمین، اور ملاقاتیوں کے لیے تمام کیمپس میں ’پیڈ پارکنگ‘ ہو۔
8- یونی ورسٹیز ملازمین/فیکلٹی کی مستقل بنیادوں پر بھرتیاں بند کریں۔
9- مستقبل میں جامعہ پشاور کو لیکچرار بھرتی کرنے سے بھی احتراز کرنا ہوگا اور ان کی جگہ صرف ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو ہی بھرتی کرنا ہوگا۔
10- غیر ضروری عمارتوں کو ہٹاکر ان کی جگہ کمرشل پلازہ تعمیر کرواکر ریونیو اکھٹا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ 10 نکات بشمول مزید 18 نکات میں بچت کی تجاویز دی گئی ہیں جن پر فپواسا تنظیم کے ارکان متفق ہیں اور حکومت سے ان کی طرف توجہ دینے کی درخواست کررہے ہیں اور دوسری جانب اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔
اساتذہ کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر تعلیمی بجٹ میں اضافہ منظور نہیں ہوا تو ملکی سرکاری جامعات بڑے بحران کی طرف جاسکتی ہیں اور ایک ناگہانی صورتحال بن سکتی ہے۔
اسی معاملے پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان کے مشیر کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی اساتذہ کے ساتھ جرگے میں 45 دن کی مدت کی بات ہوئی تھی لیکن اساتذہ نے صرف چند ہی گھنٹوں کے اندر میڈیا کے سامنے جرگے کی روایات توڑتے ہوئے اپنا بیان بدل لیا ہے۔
کامران بنگش کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس تحریری ثبوت ہے کہ ہم 45 دن کے فیصلے پر متفق ہوئے تھے اور اساتذہ نے کہا تھا کہ اس دوران ہم اخراجات اور دیگر مسائل کا جائزہ لیں گے اور اقدامات کریں گے۔‘
کامران بنگش نے کہا کہ آئندہ وہ اس ہی وقت کسی جرگے یا گروپ کے ساتھ بات چیت کریں گے جب وہ ایک واضح ایجنڈا لے کر آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ پشاور یونی ورسٹی میں غیر قانونی اخراجات کی بھرمار ہے جس کی ایک آڈٹ رپورٹ بھی آئی ہے جس کے مطابق پانچ ارب روپے غیر قانونی اخراجات پر صرف ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لیے تمام اساتذہ کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔