وزیر اعظم نے دو سال بعد جنسی ہراسانی کے واقعے کا نوٹس کیوں لیا؟

اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے منسلک فضائیہ میڈیکل کالج میں مبینہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کی مسلسل شکایات پر کوئی کارروائی نہ ہونے پر وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔

متعلقہ کالج سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب موصول نہ ہوا (ایئر یونیورسٹی فیس بک پیج)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فضائیہ کالج میں مبینہ طور پر ہراسانی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کی مسلسل شکایات پر ایکشن نہ لینے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے غفلت برتنے والے اہلکاروں کو معطل کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔

ہراسانی کا نشانہ بننے والی خاتون کے مطابق انہوں نے ایف آئی اے سے بارہا شکایت کی لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی وزیراعظم کو مخاطب کیا لیکن جواب نہ آنے پر شکایت لے کر وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئیں۔

ائیر یونیورسٹی سے منسلک میڈیکل کالج میں سوشل ورکر کے طور پر کام کرنے والی خاتون نے دو سال قبل مئی 2019 کی اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کیا ہراساں ہونا نوکری کرنے والی خاتون کے نصیب میں لکھا ہے؟ کیا آپ کی عدالت سے میں انصاف کی امید رکھ سکتی ہوں؟‘

خاتون نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے واحد ٹویٹ میں اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی بے سود رہا تھا۔

واقعہ کیا تھا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے متاثرہ خاتون سے رابطہ کیا تو انہوں نے واقعے کی تفصیل بتائی لیکن یہ درخواست کی کہ ان کا اصل نام نہ دیا جائے تاکہ وہ مزید کسی ذہنی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔

مریم (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ فضائیہ میڈیکل کالج میں سوشل ورکر تھیں اور وہاں چار سال کام کیا۔ وہ ایسے زیر تعلیم طلبہ کی کونسلنگ کرتی تھیں جو قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہوتے تھے یا کسی ذہنی اضطراب کا شکار ہوتے تھے۔

مریم نے بتایا کہ انہیں وہاں امتیازی رویے کا بھی سامنا تھا۔ ’اسی دوران کسی افسر کے بچے کی کونسلنگ کے دوران میرے خلاف مہم بھی چلائی گئی جس کے بعد مجھے انتظامی شعبے میں منتقل کیا گیا تو وہاں موجود سینیئر افسر نے میری مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوستی کی پیشکش کی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جس کے باعث میں ان کے کمرے سے بھاگ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔‘

تاہم مریم بتاتی ہیں کہ وہ اپنا فون اس افسر کے کمرے میں ہی بھول گئیں۔ ’فون سے میموری کارڈ نکال لیا گیا جس سے تصاویر نکال کر ایڈٹ کر کے مختلف نمبروں سے میرے فون پر بھیجی گئیں۔ جس افسر نے ہراساں کیا تھا اس کی طرف سے مجھے غیر مہذب تصاویر بھی موصول ہوئیں۔‘

مریم نے مزید بتایا کہ وہ پریشان تھیں اور اپنے شوہر کو اس ساری بات کی بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھیں کہ وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہوئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے رابطہ کر کے شکایت درج کرائی کہ ان کا واٹس ایپ ہیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں نمبروں سے فوٹوشاپ تصاویر بھیجی جا رہی ہیں۔ مریم نے بتایا کہ ایف آئی اے نے ان کو بلایا لیکن انہیں شک ہے کہ کالج کے متعلقہ افسر نے پہلے ہی وہاں رابطہ کر لیا تھا اس لیے ایف آئی اے نے درخواست کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ان کے بقول ایف آئی اے نے انہیں مجبور کیا کہ وہ لکھ کر دیں کہ ان کا کالج کے افسر کے ساتھ جذباتی تعلق تھا اور یہ سب وہ خود ان کو بدنام کرنے کے لیے کر رہی ہیں۔

مریم نے کہا وہ گھر آ کر شکستہ ہو گئیں اور گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش کی جس کے بعد پمز ہسپتال میں انہیں بروقت امداد سے بچا لیا گیا۔ خودکشی کی کوشش کے بعد مریم نے اپنے شوہر کو جنسی ہراسانی کا بتایا جس کے بعد میاں بیوی نے دوبارہ نئی درخواست دائر کی جس میں افسر کے خلاف ہراسانی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم پورٹل پہ بھی شکایت درج کرائی، ادارے کے سربراہان اور کالج پرنسپل کو بھی خطوط لکھے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ نومبر 2019 سے انہوں نے کالج جانا بند کردیا اور گذشتہ برس فروری میں نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے واقعے پہ متعلقہ کالج سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب موصول نہ ہوا۔

وزیراعظم آفس تک رسائی کیسے ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ای میل کر رکھی تھی جس کے بعد انہیں وقت دیا گیا کہ وہ وزیراعظم آفس ڈیلوری یونٹ آ جائیں۔ انہوں نے وہاں جا کر سارے دستاویزات مہیا کیں اور تازہ درخواست بھی لکھ کر دی۔

وزیراعظم  آفس نے درخواست پر کیا ایکشن لیا؟

خاتون کی درخواست موصول ہونے اور عملے کی جانب سے مارک ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لینے کے ساتھ سٹیزن پورٹل پر خاتون کی شکایت کے حل میں غفلت پر نوٹس لیا۔

وزیر اعظم آفس سے 21 جون کو جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے ڈی جی ایف آئی اے کو شفاف انکوائری کی غرض سے ایف آئی اے کے متعلقہ افسران کو فوری طور پر معطل کرنے کی ہدایت کر دی۔

اعلامیے کے مطابق: ’خاتون نے پاکستان سٹیزن پورٹل پر پانچ مرتبہ شکایات درج کی تاہم ایف آئی اے افسران نے کارروائی نہ کی۔ خاتون نے ہراسانی کے باعث یونیورسٹی سے نوکری چھوڑ کر ایف آئی اے سے رجوع کیا، ایف آئی اے افسران کے عدم تعاون کی وجہ سے خاتون نے مبینہ خودکشی کی کوشش کی۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا: ’16 دسمبر 2019 سے 13 جون 2021 تک ایف آئی اے نے شکایت کو مسلسل نظرانداز کیا۔ دو بار شکایت ری اوپن ہونے کے باوجود ایف آئی اے نے اپنی ذمہ داری  کی ادائیگی میں کوتاہی برتی اس لیے متعلقہ افسران کے خلاف انکوائری کرکے سخت ایکشن کی ہدایت کر دی گئی ہے۔‘

اعلامیے میں واضح حکم دیا گیا کہ معاملے کی اعلیٰ سطح تحقیقات کروا کر افسران کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی کی جائے اور 20 جولائی تک انکوائری رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین