ایران کو وارننگ: ’جوہری معاہدے میں واپسی کا وقت ختم ہو رہا ہے‘

امریکہ اور فرانس نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر بات چیت کا عمل طول پکڑتا گیا تو ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیوں میں تیزی لا سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن (دائیں)25 جون 2021 کو  پیرس میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں (بائیں) سے ملاقات کے موقع پر (فوٹو: اےا یف پی)

امریکہ اور فرانس نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ جوہری معاہدے میں واپسی کا وقت ختم ہو رہا ہے۔

دونوں ممالک نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر بات چیت کا عمل طول پکڑتا گیا تو تہران اپنی حساس جوہری سرگرمیوں میں تیزی لا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن نے فرانس کے دورے کے دوران پیرس میں اپنے فرانسیسی میزبانوں کے ساتھ اس اہم معاملے پر تفصیلی بات چیت کی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے چار سالہ دور کے دوران واشنگٹن اور پیرس کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے تاہم صدر بائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد بلنکن کے دورے کا مقصد تعاون کو فروغ دینا ہے۔

بلنکن کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ اگر ایران کی قدامت پسند حکومت ویانا میں دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران مراعات نہیں دیتی تو صدر ٹرمپ کی جانب سے مسترد کیے جانے والے معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لیے بائیڈن انتظامیہ اپنی کوششوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

بلنکن نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے اب بھی ’شدید اختلافات‘ موجود ہیں تاہم اس کے باوجود وہ صدارتی انتخابات میں سخت گیر ابراہیم رئیسی کے منتخب ہونے کے بعد بھی ایران سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’لیکن ایک ایسا مرحلہ آ سکتا ہے جہاں سے جے سی پی او اے (جوہری معاہدے) کے مقرر کردہ معیارات پر واپس لوٹنا بہت مشکل ہوگا۔‘

’ہم ابھی اس مقام پر نہیں پہنچے، میں اس کی کوئی تاریخ نہیں بتا سکتا لیکن یہ ایسی بات ہے جس سے ہم آگاہ ہیں۔‘

بلنکن نے خبردار کیا کہ اگر ایران مزید پیچیدہ سینٹری فیوجز پر کام جاری رکھتا ہے اور یورینیم کی افزودگی کو آگے بڑھاتا ہے تو وہ ’بریک آؤٹ‘ کے قریب تر آجائے گا، جس کے نتیجے میں ایران جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت کے قریب ہوگا۔

تاہم بلنکن نے کہا کہ بائیڈن اب بھی اس معاہدے میں واپسی کی حمایت کرتے ہیں تاکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو تیزی سے رول بیک کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلنکن نے کہا: ’ہمارا قومی مفاد اسی میں ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو جے سی پی او اے کے تحت پابند کیا جائے۔‘

دوسری جانب فرانس بھی مذاکرات میں پیش رفت کے لیے ایران پر دباؤ بڑھا ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ نے بلنکن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم توقع کرتے ہیں کہ ایرانی حکام حتمی فیصلہ لیں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشکل فیصلے ہوں گے، تاہم ان ہی سے مذاکرات اپنے انجام کو پہنچیں گے۔‘

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’اصل فیصلے تو مخالف فریقین کو ہی لینے ہیں۔‘

ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پیش رو باراک اوباما کی جانب سے دستخط کیے گئے تاریخی جوہری معاہدے سے امریکہ کو 2018 میں یک طرفہ طور پر نکال کر ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کا جواب تہران نے اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو تیز کرکے دیا تھا۔

ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن معاہدے میں واپسی کا عندیہ دے چکے ہیں جب کہ عالمی طاقتیں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس اپریل کے شروع سے ہی ویانا میں اس معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

یورپی یونین کے مذاکرات کار اینریک مورا نے اتوار کو کہا تھا کہ مذاکرات میں شامل فریق ایران کے جوہری معاہدے کو بچانے کے ’قریب‘ تھے لیکن اب بھی اہم نکات پر اتفاق باقی ہے۔ گذشتہ اتوار کو ہی یہ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے، جس کے بارے میں ایرانی چیف مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں شامل تمام ممالک کے نمائندے مشاورت کے لیے اپنے اپنے دارالحکومتوں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔

اس سے قبل ایران نے خبردار کیا تھا کہ اس کے قومی میڈیا سے منسلک 33 ویب سائٹوں کے خلاف امریکی اقدام جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔

واشنگٹن میں محکمہ انصاف نے کہا تھا کہ وہ امریکی ڈومینز پر موجود ایرانی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والی 33 میڈیا ویب سائٹوں کے ساتھ عراقی گروپ ’کتائب حزب اللہ‘ کی تین سائٹس بھی قبضے میں لے چکے ہیں جو ان کے بقول پابندیوں کی خلاف ورزی تھی۔

ایرانی صدر کے دفتر کے ڈائریکٹر محمود واعظی نے صحافیوں کو بتایا: ’ہم امریکہ کی اس غلط پالیسی کی مذمت کے لیے تمام بین الاقوامی اور قانونی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک ایسے وقت جب جوہری معاملے پر معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے، یہ اقدام ہرگز تعمیری نہیں ہو سکتا۔‘

امریکہ کی جانب سے ایرانی ویب سائٹوں پر قبضے کا اقدام بھی اس وقت سامنے آیا جب انتہائی قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی ملک کے نئے صدر منتخب ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا