پاکستان کا فادر گلبرٹ گوتھ کیس

چرچ اور سیکس سکینڈل کا آغاز امریکہ میں 80 کی دہائی کے وسط میں ایک دس سالہ لڑکے کے بیان سے ہوا۔ اس لڑکے نے اپنے بیان میں تفصیل سے بتایا کہ کیسے فادر گلبرٹ گوتھ نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔

چرچ پر دباؤ بڑھتا گیا اور 2018 میں پوپ فرانسس سے جنوبی امریکہ کے دورے کے دوران چلی میں جنسی زیادتی اور اس کو چھپانے کی کوشش پر زبردستی معافی منگوائی گئی(تصویر: پکسابے)

80 کی دہائی کے اوائل میں  کیتھولک چرچ سیکس سکینڈل سے ہل گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ سامنے آگے لگے جن کو پادریوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس سیکس سکینڈل میں بچے اور بچیاں دونوں ہی متاثر ہوئے تھے۔

اکثر رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کچھ رپورٹوں اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دونوں صنفوں کو برابر کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن ان دونوں رپورٹوں میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے زیادہ تر لڑکے ہی تھے۔ ابھی اس سکینڈل سے ویٹیکن نکل نہیں سکا تھا کہ پادریوں کے ہاتھوں راہبہ کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کی تازہ رپورٹیں آنے لگیں۔

جنسی استحصال کا شکار ہونے والوں اور ان کے خاندان کے لیے بہت مشکل وقت تھا، لیکن پوری کیتھولک برادری کو اس وقت ایک بار پھر شدید دھچکہ لگا جب آہستہ آہستہ ان پر یہ بات عیاں ہوئی کہ نہایت محترم اور قابل اعتبار چرچ ان جنسی زیادتیوں میں ملوث تھا۔

اس سکینڈل کی نوعیت اور وسیع پیمانے پر جنسی زیادتیوں کا ارتکاب ہونا کیتھولک برادری کے لیے بڑا واقعہ تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ چرچ کی جانب سے شروع ہی سے اس سکینڈل کو دبانے کی کوشش نے اس سارے معاملے کو مزید ہولناک بنا دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے چرچ اپنے آپ کو اس سکینڈل میں پارٹی نہ بننے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھا۔

جلد ہی چرچ کے کردار اور زیادتیوں کو چھپانے کی کوششوں نے مزید توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ چرچ نے عدالتوں میں سختی سے اس سکینڈل کا سامنا کیا اور یہ بات سامنے آئی کہ کیسے چرچ بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے زیادہ اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے کوششیں کر رہا تھا۔ اسی سیاق و سباق میں اس پر بات ہونی شروع ہوئی کہ چرچ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا۔

چرچ پر دباؤ بڑھتا گیا اور 2018 میں پوپ فرانسس سے جنوبی امریکہ کے دورے کے دوران چلی میں جنسی زیادتی اور اس کو چھپانے کی کوشش پر زبردستی معافی منگوائی گئی۔ اسی دوران آسٹریلیا کے کارڈینل پیل، جو کیتھولک چرچ میں تیسرا بڑا عہدہ ہے، کو جنسی زیادتی کے الزام میں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کو کہا گیا۔ اس کے علاوہ اسی سال میں چرچ کے کئی اعلیٰ عہدیداروں نے استعفے دیے جن پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے۔

پھر امریکی ریاست پنسلوینیا کی گرینڈ جیوری نے کیتھولک چرچ پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں ہزاروں واقعات کا ذکر تھا اور اسی رپورٹ میں چرچ کی ’پلے بک‘ کا بھی ذکر کیا جس میں جنسی زیادتیوں کو چھپانے کے لیے ’قواعد‘ بھی شامل تھے۔

چرچ اور سیکس سکینڈل کا آغاز امریکہ میں 80 کی دہائی کے وسط میں ایک دس سالہ لڑکے کے بیان سے ہوا۔ اس لڑکے نے اپنے بیان میں تفصیل سے بتایا کہ کیسے فادر گلبرٹ گوتھ نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس بیان اور میڈیا کی جانب سے چرچ میں جنسی استحصال کو چھپانے کی کوششوں کی رپورٹوں نے اس مسئلے کو عالمی توجہ بنا دیا۔

سنہ 2012 میں امریکی کیتھولک بشپس کی کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ کم از کم 16 ہزار افراد ’معتبر الزامات‘ کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ تاہم چرچ کی جانب سے ان الزامات کو رد کرنے اور چرچ کی ساکھ بچانے کے لیے صرف 2015 میں چار ارب ڈالر قانونی چارہ جوئی پر خرچ کیے گئے۔

دس سال کا بچہ تو نہیں بلکہ ایک نوجوان نے حال ہی میں پاکستان میں ہمت کی ہے، کہ کیسے وہ مدرسے میں ایک مفتی کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں کا شکار ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مدرسے کے طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیو گذشتہ ہفتے وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیے جانے والے مفتی عزیز الرحمٰن نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ عزیز الرحمٰن نے پولیس کو یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد طالب علم سے صلح کی کوشش بھی کرتے رہے اور اس کے والدین کو اس سلسلے میں لاہور بھی بلایا لیکن چونکہ ایف آئی آر کے بعد پولیس انہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی اس لیے وہ چھپ گئے اور لڑکے کے والدین سے ملاقات نہیں ہو سکی۔

جنسی استحصال مذہبی افراد اور اساتذہ وغیرہ کے ہاتھوں ہونے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ استحصال کرنے والے افراد نہ صرف قابل اعتماد ہوتے ہیں بلکہ اخلاقی یا مذہبی قوت کے بھی مالک ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا سماج میں رتبہ ہوتا ہے۔ یہ بچے جو مدرسے جاتے ہیں وہ یا تو اپنے ساتھ ہوئے استحصال کو اپنی ہی غلطی مانتے ہیں یا پھر سماج کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔

یہ کہنا سراسر غلط ہو گا کہ تمام مدارس یا ان مدارس میں تمام اساتذہ ہی ایسے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو رد کر دینا کہ مدارس میں ایسے افراد موجود نہیں ہیں اور جنسی استحصال سے انکاری ہونا بذات خود اس مجرمانہ فعل کی پردہ پوشی کے مترادف ہے۔ مدارس میں جنسی استحصال کے حوالے سے کئی رپورٹیں آ چکی ہیں لیکن مدارس کے منتظمین یا حکومتی عہدیدار اس حوالے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ 

یہ پاکستان کا فادر گلبرٹ گوتھ کیس ہے اور حکومت اور مذہبی رہنماؤں کا ٹیسٹ کیس ہے کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے کہ جنسی استحصال مدارس میں کس حد تک پھیلا ہوا ہے ور اس کے مرتکب افراد کو سزائیں دی جائیں۔ ایسے واقعات کو خفیہ رکھنا اور خاموشی سے حل کرنے سے یہ انسانی المیہ ختم نہیں ہو گا بلکہ مزید بڑھے گا۔ معاشرے میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچے معاشرے میں نارمل انسان کی طرح گھل مل نہیں سکیں گے اور یہ بات کبھی معلوم نہیں ہو سکے گی کہ اس ناسور کی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ