فہد کا گلیوں میں پھرنے سے سکول تک کا چار سالہ سفر

راولپنڈی میں سپارک نامی ادارہ سکول نہ جانے والے بچوں کے لیے غیر رسمی تعلیم کا ایک سینٹر چلا رہا ہے جہاں چار سال وقت گزار کر 10 سالہ فہد کا اب سکول میں داخلہ ہوگیا ہے۔

پاکستان کی آبادی کا 47 فیصد پانچ سے 12 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد تقریباً نو کروڑ بنتی ہے اور انہی میں سے ایک ہے راولپنڈی کے علاقے پیر ودھائی کا فہد، جو چار سال قبل تک تعلیم کے حصول سے دور زندگی بسر کر رہا تھا۔ 

فہد کے والدین غربت کے باعث اپنے چار بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے، جس کی وجہ سے فہد اور اس کے دوسرے بہن بھائی اپنا دن گلیوں میں کھیل کر گزارتے تھے۔ 

اپنی چار سال پہلے کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے فہد کہتا ہے: ’مجھ میں بڑوں کا ادب اور بچوں سے شفقت کا طریقہ ہی نہیں تھا، میں اخلاقیات سے دور تھا۔‘ 

فہد اب بھی یاد کر کے افسوس کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سارا سارا دن گلیوں میں کھیل کر اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ ’لیکن اس میں میرا کیا قصور تھا، میرے والد گاڑیوں میں ڈیکوریشن کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں بیچتے تھے اور ہمیں سکول بھیجنے کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘ 

فہد محلے کے دوسرے بچوں کو بستے اٹھائے سکول جاتے دیکھ کر خواہش کیا کرتا تھا کہ اسے بھی علم کی دولت حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔   

دس سالہ فہد کو یاد ہے کہ کس طرح پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے ان کی ماں سے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ’پہلے تو امی ٹالتی رہیں اور پھر آخر کار آنٹی کے اصرار پر انہوں نے وجہ بتا دی۔‘ 

پڑوسن نے فہد کی والدہ کو قریب ہی واقع ایک تعلیمی مرکز کے متعلق بتایا جہاں تعلیم حاصل نہ کر سکنے والے بچوں کے لیے ابتدائی تربیت اور غیر رسمی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ 

والدہ فہد کو فوجی بازار میں سپارک کے مرکز لائیں جہاں ان کے دو بچوں کو داخلہ مل گیا۔ 

سپارک (سوسائٹی فار دا پروٹیکشن آف دا راٹس آف دا چائلڈ) مرکز میں فہد چار سال تک رہا، جہاں اسے دوسرے بیسیوں بچوں کے ساتھ غیر رسمی تعلیم دی گئی، جس کے بعد سپارک ہی کی کوششوں سے اسے ایک سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرکز میں گزارے وقت کو یاد کرتے ہوئے فہد کی آنکھوں میں آج بھی ایک چمک نظر آتی ہے۔ ’میری تو دنیا ہی جیسے بدل گئی تھی، یہاں سب محبت اور پیار کرنے والے لوگ تھے، ہمیں پڑھاتے، تمیز سکھاتے، کھیلنے بھی دیتے تھے۔‘ 

فہد نے اپنے آپ کو چار سالوں میں ایک بدلا ہوا انسان پایا، وہ کہتے ہیں کہ  سپارک مرکز میں گزارا گیا وقت ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ 

’آج مجھے بڑوں سے تمیز سے بات کرنا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا آتا ہے اور یہ میں نے مرکز میں ہی سیکھا، آج میں ایک بدلا ہوا انسان ہوں۔‘

سپارک اور اس جیسی سینکڑوں غیر سرکاری تنظیمیں پاکستان میں سٹریٹ چلڈرن کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں، اور انہی کی کوششوں سے لاکھوں بچے جو کسی بھی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ 

سپارک سینٹر 

دسمبر 1992 میں قائم ہونے والی غیر سرکاری تنظیم سپارک پاکستان بھر میں 10 ایسے مراکز چلا رہی ہے جہاں سٹریٹ چلڈرن کی تربیت اور غیر رسمی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ 

سپارک کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا مشن بچوں کے حقوق کو فروغ اور تحفظ دینا ہے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ایڈووکیسی، آگاہی، خدمات کی فراہمی اور انسانی اور ادارہ جاتی ترقی فراہم کر کے انہیں (بچوں) کو بااختیار بنانا ہے۔ 

راولپنڈی کی فوجی کالونی میں واقع سپارک سینٹر کے سوشل موبیلائزر محمد عارف کا کہنا تھا کہ وہ چائلڈ رائٹس اور چائلڈ پروٹیکشن پر کام کرتے ہیں، جس میں وہ سٹریٹ چلڈرن کو غیر رسمی تعلیم فراہم کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا