طالبان کی واپسی کا خوف: افغانستان میں پاسپورٹ درخواستوں میں اضافہ

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاسپورٹ اتھارٹی افغانستان بھر میں روزانہ 10 ہزار پاسپورٹ تقسیم کرتی ہے، اس کے باوجود پاسپورٹ کے لیے بھیڑ اور طلب توقعات سے تجاوز کرگئی ہے۔

افغانستان میں حالیہ دنوں میں پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے پورے ملک سے کابل پاسپورٹ آفس آنے والے شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاسپورٹ اتھارٹی افغانستان بھر میں روزانہ 10 ہزار پاسپورٹ تقسیم کرتی ہے، اس کے باوجود پاسپورٹ کی بھیڑ اور طلب توقعات سے تجاوز کرگئی ہے۔

پاسپورٹ درخواستوں میں اضافے کی بنیادی وجہ طالبان کی واپسی اور حکومت کے زوال کا خوف ہے۔ پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے والوں میں زیادہ تر سرکاری ملازم یا وہ لوگ ہیں جو غیرملکی اداروں میں کام کرتے ہیں۔

اگرچہ نیٹو کے اراکین ممالک نے گذشتہ 20 سال کے دوران ان کے ساتھ کام کرنے والوں، خاص کر ٹرانسلیٹرز یا مترجمین کو ملک سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن ان میں سے بعض نیٹو سے پہلے ہی افغانستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جیسے جیسے پاسپورٹ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، ویزوں کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ افغان پاسپورٹ دنیا کے سب سے کم قدر رکھنے والے پاسپورٹ میں سے ایک ہے، لیکن اکثر ممالک اب بھی بغیر کسی پابندی کے افغان شہریوں کو ویزا جاری کرتے رہتے ہیں۔

انہی ممالک نے حال ہی میں اپنے ویزوں کی تعداد کو کم کر دیا ہے یا پھر ویزا کی شرائط کو بڑھا دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ویزے کے غیرقانونی اجرا کا کاروبار بڑھ چکا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں ایک ہفتے کے اندر 90 ڈالر میں ازبکستان کا قانونی طور پر ویزا حاصل کرنا ممکن تھا لیکن اب یہ 1500 ڈالر میں بمشکل دستیاب ہے۔

افغانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پڑوسی ممالک پہنچنا چاہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران اور پاکستان جانے والے غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں پر پہلے ہی ہجوم تھا اور انسانی سمگلروں نے افغانوں کو دونوں ملکوں کو منتقل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

اس صورت حال کی سب سے بڑی وجہ طالبان کے اقتدار میں واپس آنے اور شہروں کو اپنے قبضے میں لینے کا خوف ہے۔ نہ صرف سوشل میڈیا طالبان کے لیے پروپیگنڈا کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے بلکہ یہاں تک کہ کچھ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی اس آگ کے لیے ایندھن  کا کام کر رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں مغربی میڈیا میں بار بار یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد چھ ماہ کے اندر طالبان کے قبضے کا امکان ہے۔

ادھر افغانستان کی سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ طالبان امن نہیں چاہتے اور جنگ جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ ’یہ گروپ بین الافغان امن مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

عبداللہ نے افغان قومی مفاہمت کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان اپنی ضد کے ساتھ ، امن مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان جنگ پر اصرار کرتے ہیں تو بلاشبہ تمام لوگ اسلحہ اٹھائیں گے اور ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ذرائع ابلاغ یہ تجزیہ اپنے شہریوں میں خوف پیدا کرنے اور اپنی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں، لیکن افغانستان میں جس کے لیے مغربی میڈیا خبروں کا بہترین ذریعہ ہے، ان اطلاعات سے لامحالہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ طالبان آ رہے ہیں۔

افغانستان کے متعدد پڑوسی ممالک، جن کا افغان جنگ میں ہاتھ ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح سے طالبان کی حمایت کرتے ہیں، ان دنوں انہوں نے طالبان تربیت بڑھا دی ہے۔

اس حد تک کہ ان ممالک کے سیاسی رہنما براہ راست افغانستان پر طالبان کے قبضے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اگر طالبان افغانستان پر قبضہ کرتے ہیں تو پاکستان طالبان کے خلاف نہیں لڑے گا۔ یہ سینیئر پاکستانی عہدیدار کا طالبان کے بارے میں دیا گیا دلچسپ بیان ہے۔

دنیا میں لوگ یہ جانتے کہ پاکستان اور طالبان کے گذشتہ 25 سالوں میں کس طرح کا تعلق رہا ہے۔ چند دن پہلے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے سرعام اعتراف کیا کہ طالبان کے پاکستان میں گھر ہیں، ان کے زخمیوں کا علاج وہاں کیا جا رہا ہے اور ان کے اہل خانہ وہیں رہ رہے ہیں۔

یہ تبصرے طالبان کو حقیقی فاتح گروپ کے طور پر پیش کرنے کی ایک منظم کوشش ہے، جو آج یا کل ایک بار پھر افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کوئی بھی جنگ کی شدت اور طالبان کے بعض علاقوں پر قبضے سے انکار نہیں کرتا لیکن ایک یا ایک سے زیادہ شہروں پر قبضہ پورے افغانستان کے قبضے سے بہت مختلف ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں میں طالبان اپنی پوری طاقت کے ساتھ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک پر بھی قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

تاہم، افغانستان میں عوامی سوچ ایسی ہے کہ اگر طالبان کسی گاؤں پر قبضہ کرتے ہیں تو عوامی رائے اس کو شہر میں تبدیل کر دیتی ہے اور اگر طالبان کسی شہر پر قبضہ کرتے ہیں تو عوام اس گروہ کو ایک صوبہ دے دیتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا