افغانستان میں ایک بار پھر جنگ کی دھمک سنائی دے رہی ہے

طالبان تیزی سے اضلاع پر قبضے کر رہے ہیں اور زیادہ تر اضلاع ملک کے شمال میں واقع ہیں۔

ہرات کے لوگ سرکاری فوج کا ساتھ دینے کے لیے نکل آئے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ نے افغانستان کے وسطی صوبے پروان میں واقع بگرام ایئر بیس خالی کرکے افغان حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ کابل سے 69 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس اڈے کو خالی کرنے کا مطلب ہے کہ آخری ڈھائی سے تین ہزار امریکی فوجی بھی افغانستان سے رخصت ہو گئے ہیں۔

گذشتہ 20 سال سے یہ اڈہ امریکی فوج کے استعمال میں تھا اور اسے خالی کرنے سے واضح ہو گیا ہے کہ یکم مئی سے شروع ہونے والا امریکی انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔

ایک طرف انخلا ہے اور دوسری جانب افغانستان میں اقوام متحدہ کے اسسٹنس مشن کی سربراہ اور خصوصی ایلچی ڈیبرا لیونز نے کہا ہے کہ سیاست سے سکیورٹی تک اور امن معاہدے سے معیشت تک افغانستان کا ایک بار پھر بدتر حالات کی طرف جانا ناقابل تردید ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ افغان قوم کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے عالمی دنیا کو باور کروایا کہ جو کچھ بھی افغانستان میں ہوگا اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس تشویش ناک صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔

امریکہ کی جانب سے اپریل کے وسط میں فوجوں کے انخلا کی خبر افغان عوام کے لیے ایک زلزلے کی مانند تھی۔ افغان عوام اس خبر کے لیے تیار نہیں تھے اور ہوتے بھی کیسے کیونکہ فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ملک میں امن ہوگا، تاہم اس معاہدے کے حوالے سے مذاکرات میں پیش رفت تو بہت سست رہی لیکن ملک میں جاری مسلح تصادم میں پیش رفت بہت تیز۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق رواں سال مئی سے اب تک طالبان نے ملک کے 370 اضلاع میں سے 104 پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ جن اضلاع پر قبضہ کیا گیا ہے وہ ایک سوچی سمجھی فوجی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ اضلاع پر ایسے کنٹرول حاصل کیا گیا ہے کہ ان اضلاع کے صوبائی دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے صاف ظاہر ہے کہ طالبان نے اپنے آپ کو ایسے پوزیشن کرلیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ان صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیں گے۔ از خود افغانستان، اس کے ہمسایہ ممالک اور عالمی دنیا کے لیے افغانستان شاید ایک بار پھر مسئلہ بن جائے۔ ملک میں مسلح تصادم یا خانہ جنگی کی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے، مالی معاونت حاصل کرنے، منصوبہ بندی کرنے اور کارروائیاں کرنے کے لیے ماحول سازگار ہو جائے گا۔

طالبان کی جانب سے 104 اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد کم از کم چھ صوبوں میں ملیشیا طالبان کی پیش قدمی اور ان کو پسپا کرنے کے لیے سامنے آئی ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کی ناکامی کے بعد رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ طالبان مخالف ملیشیا نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور ملک میں تشویش ہے کہ افغانستان ایک بار پھر امن کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ایک لمبی خانہ جنگی کی جانب جا رہا ہے۔  

افغان صدر اشرف غنی نے گذشتہ دنوں سابق سوویت یونین مخالف اور طالبان مخالف اثر و رسوخ والے رہنماؤں سے ملاقات کی اور استدعا کی کہ وہ اپنی رنجشیں بھول کر متحد ہو جائیں اور افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کریں تاکہ ملک میں امن و استحکام آئے۔

دوسری جانب نئے وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی نے عوام سے درخواست کی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہوں اور حکومت ان کو ہر طرح کا اسلحہ اور وسائل مہیا کرے گی۔

افغان صدر اور وزیر دفاع دونوں ہی کو امید ہے کہ حوصلے پست ہوئی اور طالبان کے حملوں کے باعث کمک پہنچانے میں مشکلات میں گھری سکیورٹی فورسز ایک بار پھر طالبان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

لیکن سکیورٹی فورسز کی مدد کرنے اور طالبان کو شکست دینے کے منصوبے کی وجہ سے حکومت ان وار لارڈز کو ایک بار پھر سے طاقتور بنا دے گی اور اسی وجہ سے خانہ جنگی کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔

کابل میں انسٹی ٹیوٹ آف وار اینڈ پیس کے سربراہ تمیم عاصی کا کہنا ہے کہ ملیشیا کو اسلحہ فراہم کرنے اور ان کو طاقتور بنانا آفت کو دعوت دینے اور ایک بار پھر سے افغانستان کی تاریک تاریخ دہرائے جانے کے مترادف ہے۔ ’اس سے ملک میں پہلے ہی سے لسانی تفریق مزید گہری ہوجائے گی اور حکومت کی رِٹ بھی کمزور پڑ جائے گی۔ ملیشیا پر انحصار کرنا ایک ایسی زہر سے بھری گولی ہے، جس سے غنی کو کم مدتی فائدہ تو حاصل ہو جائے گا لیکن بعد میں یہی گولی ان کی حکومت کو ختم کر دے گی۔‘

طالبان تیزی سے اضلاع پر قبضے کر رہے ہیں اور زیادہ تر اضلاع ملک کے شمال میں واقع ہیں۔ افغانستان کا شمالی علاقہ اقلیتوں کا گڑھ ہے اور کئی مجاہدین رہنما اسی علاقے سے ہیں، جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ مل کر 2001 میں طالبان کی حکومت ختم کی تھی۔

افغانستان سے آنے والی معلومات کے مطابق ملک کے شمال کے کئی صوبوں سے طالبان اور ملیشیا اور سویلین گروپوں کے درمیان لڑائیوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ ملیشیا اور سویلین گروپ تاجک، ازبک اور دیگر اقلیتوں کے رہنماؤں کے حامی ہیں اور وہ پشتون اشرف غنی کی محبت یا اس کی مدد کے لیے میدان جنگ میں نہیں اترے۔

افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اوسٹن ایس ملر نے بھی طالبان کی جانب سے درجنوں اضلاع پر قبضے کو پریشان کن قرار دیا ہے لیکن اس سے زیادہ ملیشیا کے استعمال کو تشویش ناک کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے ملیشیا کو طاقتور کرنے سے ملک میں خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

’جس طرح سے ملیشیا کو مسلح کیا جا رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک خانہ جنگی کی جانب جا رہا ہے اور یہ بات دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔‘

امریکہ کی 20 سالہ جنگ تو رواں سال 11 ستمبر کو ختم ہو جائے گی لیکن افغانستان میں ایک اور جنگ اب شروع ہوگی۔  

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ