’آر ایس ایف کی رپورٹ کے کوئی شواہد نہیں پیش کیے گئے‘

صحافیوں کی سرگرم تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے پاکستانی وزیر اعظم کو آزادی صحافت دبانے والے عالمی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کیا ہے، جسے پاکستانی حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا سامنا ہے جس میں ملک کے خلاف لاپتہ افراد اور اظہار رائے کی آزادی جیسے معاملات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

پاکستان نے صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی اس رپورٹ کو سختی سے مسترد کیا ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو آزادی صحافت کو دبانے والے دنیا کے 37 بد ترین حکمرانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

پیرس میں قائم تنظیم کی جانب سے جاری اس فہرست میں شامل عالمی رہنماؤں کو ’پریڈیٹرز آف پریس فریڈم‘ یعنی آزادی صحافت کے دشمن قرار دیا گیا تھا۔

فہرست میں وزیر اعظم عمران خان سمیت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، چین کے صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادی میر پوتن اور دیگر یورپی رہنما بھی شامل ہیں۔ 

رپورٹرز سانز فرنٹیئرز (آر ایس ایف) پر شائع ہونے والی رپورٹ کے ردعمل میں عمران خان کی حکومت کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق آر ایس ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2018 میں پارلیمانی انتخابات میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہی ملک میں میڈیا کے خلاف ’ڈھٹائی سے کی جانے والی سینسرشپ‘ کے واقعات میں ہوشربا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں اخباروں کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کی گئی، میڈیا اداروں کو اشتہاروں کی بندش اور ٹی وی چینلز کے سگنلز جام کر کے انہیں دھمکایا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان میں سرخ لکیر عبور کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں، اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

رپورٹ کے ردعمل میں منگل کو پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ایک بیان میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ’اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کی آزادی‘ پر مکمل یقین رکھتی ہے۔

بیان میں وزارت اطلاعات نے کہا کہ انہیں حیرت ہوئی کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اس نتیجے پر پہنچی کہ پاکستان میں ابلاغی اداروں کو عمران خان کی حکومت میں سخت سینسرشپ اقدامات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کے مطابق حکومت صحافیوں کے لیے موافق ماحول پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔

بیان میں مزید کہا گیا: ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ (رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز) نے جو رپورٹ جاری کی وہ پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جس کے کوئی تائیدی شواہد بھی موجود نہیں۔‘

وزارت نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے ’مستقبل میں یہ تنظیم اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے گریز کرے گی۔‘

اے پی کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے طویل عرصے سے ایک خطرناک جگہ بن چکی ہے۔ 2020 میں ایک بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی سالانہ گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں پاکستان نویں نمبر پر تھا۔ اس انڈیکس میں ان ممالک کو شامل کیا گیا جہاں صحافیوں کو باقاعدگی سے قتل کیا جاتا ہے اور ان کے قاتل آزاد گھومتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کی حمایت کرتا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکن پاکستان کی فوج اور ایجنسیوں پر صحافیوں کو ہراساں اور ان پر حملے کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے بین الاقوامی تنظیم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اس فہرست میں شامل کرنے کا معیار واضح کرے۔

ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا سامنا ہے جس میں ملک کے خلاف لاپتہ افراد اور اظہار رائے کی آزادی جیسے معاملات کو استعمال کیا جا رہا ہے، حکومت نے آر ایس ایف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معیار کو ہمارے ساتھ شیئر کرے جسے اس نے اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

آر ایس ایف پر شائع ہونے والی رپورٹ پر فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک کے خلاف ’سازش‘ کا حصہ قرار دیا تھا۔

انہوں نے لکھا: ’ایک سازش کے تحت پاکستان میں آزادی اظہار پر بندش کا بیانیہ دیا جا رہا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے دیگر ریگولیٹری نیٹ ورکس میں لانے کے لیے ایک مخصوص گروپ اس پروپیگنڈے کا حصہ بنتے ہیں، باہر سے جعلی گروپ خبر شروع کرتے ہیں اور پاکستان میں ایک مخصوص ٹولہ اس بیانیے کو آگے بڑھاتا ہے۔‘

حکمران جماعت کے دیگر ممبران نے بھی آر ایس ایف کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں سیکڑوں اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا چینلز بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد نے بھی ٹوئٹر پوسٹ میں اس رپورٹ کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ خود ساختہ جلاوطنی میں رہنے والے پاکستانی صحافیوں کو ریاستی پالیسیوں کے ذریعے زبردستی ملک سے بے دخل کیا گیا۔

اس پیشرفت کے تناظر میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے عرب نیوز کو جاری بیان میں کہا کہ وہ میڈیا پر ’غیر اعلانیہ سینسرشپ‘ ختم کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے ملک بھر میں کام کرنے والے صحافیوں کی حفاظت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے عرب نیوز کو بتایا: ’حکومت مختلف حربے اپنا کر میڈیا میں تنقید کرنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان حربوں میں صحافیوں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے نئے قواعد کو متعارف کرانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ پاکستان میں صحافت کی آزادی کے لحاظ سے تاریک ترین دور ہے اور ہم آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے کیوں کہ یہ حقوق آئین میں شامل ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان