’طالبان اقتدار میں آئے تومذہبی جماعتوں کا پاکستان پر دباؤ بڑھے گا‘

طالبان کے کابل فتح کرنے کی صورت میں پاکستان، چین، ایران اور روس اسے تسلیم نہیں کریں گے، امریکہ، یورپ اور عرب دنیا بھی نہیں کرے گی: کوئٹہ میں سیمینار سے شرکا کا خطاب

شرکا نے کہا کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا تو لامحالہ جو اس وقت اقتدار میں ہیں وہ گوریلا جنگ شروع کرسکتے ہیں جس طرح ابھی طالبان کررہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے افغانستان میں بدلتے حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرکے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔

 کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام جمعرات کو منعقد کیے گئے ایک سیمینار میں بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں بلوچستان پر اس کے اثرات کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کیا۔

معروف دانشور ڈاکٹر دین محمد بزدار نے اس موقع پر کہا کہ اگر ہم افغانستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھیں تو ہمیں وہاں تین طرح کے ممکنہ حالات نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’پہلی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ طالبان اور افغان حکومت آپس میں بیٹھ کر مشترکہ حکومت تشکیل دیں، جو میرے خیال میں سب سےاچھا آپشن ہے۔ اگر یہ ہوجائے تو اس کا بلوچستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

 ڈاکٹر بزدار کے مطابق: ’دوسری صورت یہ ہے کہ طالبان اپنی لڑائی جاری رکھیں گے، تاہم وہ کابل فتح نہیں کرسکیں گے۔ اس میں افغانوں کو مزید تکلیف کا سامنا ہوگا۔ وہاں کے لوگ نقل مکانی کرسکتے ہیں۔ اس کے بھی کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’تیسری صورت یہ ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرلیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو لامحالہ جو اس وقت اقتدار میں ہیں وہ گوریلا جنگ شروع کرسکتے ہیں، جس طرح ابھی طالبان کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جنگ جاری رہے گی، جس کا اثر بلوچستان اور بلوچوں پر بھی پڑے گا۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں اگر پاکستان نے امریکہ کو اڈے دیے تو اس سے پاکستان کا جھکاؤ بھی اسی طرف ہوگا لیکن اگر اس نے ساتھ نہیں دیا، جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے اڈے دینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ ہم جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، اس سے پاکستان امریکہ سے دور اور چین کے قریب ہوجائے گا۔

ڈاکٹر بزدار کے بقول: ’اس صورت حال میں جو تیسری قسم ہے اس کے اثرات بلوچ مہاجرین پر مرتب ہوں گے جو افغانستان میں ہیں، انہیں وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ تاہم اس صورت میں امریکہ اور مغرب کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہوسکتی ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے مذہبی جماعتیں پاکستان پر دباؤ بڑھائیں گی کہ طالبان جیسا نظام یہاں نافذ کیا جائے۔ جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔‘

انہوں نے کہا: ’طالبان کے کابل فتح کرنے کی صورت میں پاکستان، چین، ایران اور روس اسے تسلیم نہیں کریں گے، امریکہ، یورپ اور عرب دنیا بھی نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں افغان فورسز کابل کا دفاع کرتی رہیں گی، شاید کئی سال تک کریں جو طویل بھی ہوسکتی ہے۔‘

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نواب زادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ برطانیہ نے کمیونسٹ انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے اس خطے میں ہندو مسلمان کا تنازع بنایا جس کی وجہ سے یہاں ایک فرنٹ لائن سٹیٹ کا قیام عمل میں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں قیام سے لے کرآج تک کم مدت کے لیے سویلین حکومتیں رہیں مارشل لا لگنے کے باعث ہم جنگوں کا شکار رہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد مارشل لا کا راستہ بند ہوگیا، جس کے باعث عالمی سامراج نے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت ایجاد کی، جسے بعد میں اقتدار میں لایا گیا۔‘

 لشکری رئیسانی نے کہا کہ ’عمران خان کی حکومت کو لانے میں برطانیہ کے لارڈ نذیر کا ہاتھ بھی ہے۔ جب میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں لندن میں تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر میں کل کنٹینر پر نظر آیا تو سمجھ لیں کہ عمران خان کی حکومت آئے گی۔‘

لشکری مزید کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں بلوچ اور پشتون اسلحہ اپنے سماج اور سرزمین کے تحفظ کے لیے اٹھاتے تھے لیکن سامراجی قوتوں کی سازشوں اور پراکسیز کے باعث قبائلی تنازعات ایجاد کیے گئے جس کی وجہ سے آج ہم اپنی سرزمین پر عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہ اسلحہ جو افغانستان سے آیا وہ ہمارے کندھے پر ہے، جس سے ہم اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘

رئیسانی کے مطابق: ’کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی، وہاں تو گذشتہ 40 سالوں سے خانہ جنگی ہے۔‘

موجودہ صورت حال کےحوالے سے انہوں نے مرزا غالب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا خیر خبر ہے تو مرزا نے بتایا کہ بادشاہ قلعےمیں ہے، حکومت کولکتہ میں ہے حکم کمپنی بہادر کا چل رہا ہے۔‘

 لشکری رئیسانی نے تجویز دی کہ ’پاکستان ڈیموکریٹک الائنس اگر پاکستان کے لوگوں کی نمائندہ ہے تو اسے افغانستان کے حوالے سے ایک آل پارٹیز کانفرنس پشاور اور ایک کوئٹہ میں طلب کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان اس جنگ میں فریق نہیں ہے تو اسے اقوام متحدہ کے ذریعے ریجنل کانفرنس بلانی چاہیے، جس میں تمام ہمسایہ ممالک کو مدعو کیا جائے۔ جس میں یہ طے کیا جائے کہ افغانستان کے اندر دنیا کی مداخلت کو عدم مداخلت کی طرف لے جانا چاہیے، جس سے وہاں نہ صرف استحکام آئے گا بلکہ اس کے مضر اثرات جو آس پاس پھیل سکتے ہیں وہ اس سے بھی بچ جائیں گے۔‘

ڈاکٹر دین محمد بزدار نے اپنے خطاب میں بلوچ مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بلوچ مسئلے کے تین بنیادی نکات ہیں جنہیں ہم شناخت، وسائل اور سیلف رول کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شناخت کا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ آبادی پسماندگی کا شکار ہونے اور قبائلی نظام کے باعث تحلیل ہو رہی ہے۔ حالیہ شورش میں بھی بہت سے لوگوں نے سندھ کی طرف نقل مکانی کی۔

 وہ کہتے ہیں کہ بلوچ ڈیموگرافک کو زیادہ نقصان افغان مہاجرین کی وجہ سے ہوا۔ 2017 کی مردم شماری میں کوئٹہ ڈویژن کی آبادی میں 144 فیصد اضافہ ہوا اور کوئٹہ شہر کی آبادی میں 200 فیصد اضافہ ہوا۔ 

ڈاکٹر بزدار کے بقول: ’یہ صرف کوئٹہ کی صورت حال ہے۔ گوادر باقی ہے، وہاں پر تو سیلاب آئے گا۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جو بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں اگر شفاف انتخابات ہو بھی جائیں تو کوئی بلوچ منتخب ہو کر نہیں آئے گا، اگر آ بھی جائے تو پھر بھی اس کی شناخت پر کاری ضرب لگے گا۔

وسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں گیس 1956 میں دریافت ہوئی اور 20 سال تک پورے ملک میں سپلائی ہوتی رہی۔ 

انہوں نے قیصر بنگالی کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1964 سے لے کر 2014 تک 71 کھرب روپے بلوچستان کے حصے کا پیسہ دوسرے صوبوں پر خرچ کیا گیا۔  گیس کی رائلٹی کی مد میں بلوچستان کو 35 روپے فی ایک ہزار مکعب فٹ، سندھ کو 125، پنجاب کو 240 روپے ملتے ہیں۔

ڈاکٹر بزدار نے سینڈک کے حوالے سے کہا کہ ’اس پر چین 2003 سے کام کر رہا ہے، وہاں ذخائر کا تخمینہ 400 ملین ٹن لگایا گیا ہے، ایک سال سے سینڈک سے جو سونا نکالا جارہا ہے وہ ایک اعشاریہ پانچ ٹن، چاندی دو اعشاریہ آٹھ ٹن اور تانبا ایک لاکھ 58 ہزار ٹن ہے۔ اس منصوبے سے بلوچستان کو صرف دو فیصد ، مرکز کو 48 فیصد اور چین کا حصہ 50 فیصد ہے۔‘

 اسی طرح انہوں نے بلوچستان میں مچھلی پیداوار اور گوادر بندرگاہ کے معاہدے کے حوالے سے بتایا کہ اس کا معاہدہ منظر عام پر نہیں آیا، صرف یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے بلوچستان کو صفر اعشاریہ 69 فیصد ریونیو ملے گا۔

 انہوں نے سیلف رول پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 73 سال ہوگئے ہیں، اس دوران یہاں حقیقی معنوں میں جو نمائندے منتخب ہوئے اور انہوں نے حکومت کی اس کا عرصہ صرف تین سال بنتا ہے، جس میں سردار عطا اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی اور سردار اختر مینگل کی حکومت شامل ہے۔ باقی ادوار میں اسلام آباد کے منتخب لوگ یا فوجی حکمران رہے ہیں۔

سیمینار سے سیاسی رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ بظاہر اس جنگ سے انخلا کر رہا ہے مگر یہ قطعاً ممکن نہیں کہ وہ اپنے مفادات کو افغانستان میں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ وہ خطے میں ایک غیر یقینی صورت حال پیدا کر رہا ہے، جس سے ممکنہ طور پر خطے میں خون ریزی اور نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔‘

سیمینار سے پی ایچ ڈی سکالر سیف اللہ ناصر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے ایک نئی چیز سامنے آرہی ہے کہ اس بار جنگ ان علاقوں میں ہے جہاں اس سے پہلے نہیں تھی، جیسے بلوچستان کے سرحدی علاقے سپن بولدک ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی غیر یقینی صورت حال کے باعث مہاجرین کا انخلا شروع ہوسکتا ہے۔ اس کے نتائج غیر متوقع نہیں ہیں، تاہم اس صورت حال سے بلوچستان کے اپنے مسائل مزید خراب ہوجائیں گے۔

سیف اللہ ناصر نے سوال اٹھایا کہ اگر سرحد پر مہاجرین جمع ہوتے ہیں جنہیں روکنے کے لیے پاکستان نے سرحد پر باڑ لگادی ہے لیکن ان کی تعداد بڑھنے کے باعث پاکستان عالمی اداروں کا دباؤ کب تک برداشت کرسکے گا؟

انہوں نے کہا کہ اگر مہاجرین کو روکا نہ جاسکا تو اس کے لیے سرحد پر بائیو میٹرک نظام لگایا جائے، جس سے ان کا ریکارڈ مرتب ہوسکے گا جو مشکل نہیں ہے۔ اس طرح مہاجرین جو جعلی شناختی کارڈ وغیرہ بناتے ہیں اس صورت حال کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

 سیف اللہ کہتے ہیں کہ بلوچستان منشیات کی سمگلنگ کا بڑا روٹ ہے اور طالبان کے قبضے کی صورت میں منشیات کا کاروبار مزید پھیل سکتا ہے۔

سیمینار سے طاہر ہزارہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم 1881 اور 1883 کا دور دیکھیں، جب افغانستان میں انگریزوں نے خانہ جنگی پیدا کی اور ہزارہ قوم کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ ہمارے آبا و اجداد اسی جنگ کے باعث نقل مکانی کرکے یہاں آئے تھے۔ اسی طرز کی صورت حال پر اب دوبارہ عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو کہ افغانستان کی صورت حال میں تبدیلی آتی جارہی جن پر مزید بحث اور مباحثے کی ضرورت ہے۔

سیاسی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس مسئلے پر شروعات کردی ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان