ممتاز بھٹو کو ’دس سروں‘ والا کیوں کہتے تھے؟

نمایاں سیاست دان، سابق گورنر سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

نو دسمبر، 1996 کو لی گئی اس تصویر میں نظر آنے والے ممتاز بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا جبکہ بیرسٹر کی ڈگری لندن کی یونیورسٹی آف لنکن سے لی (روئٹرز)

سندھ کے نمایاں سیاست دان، سابق گورنر سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو اتوار کو 87 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔

ممتاز بھٹو کے ترجمان ابراہیم ابڑو کے مطابق وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ وہ اتوار کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔ ان کی میت کو اتوار کی شام لاڑکانہ لے جایا جائے گا۔

ممتاز بھٹو 29 نومبر، 1933 کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے گاؤں پیر بخش بھٹو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب نبی بخش خان بھٹو برطانوی دور حکومت میں قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔

انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں پیر بخش بھٹو میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سیاحتی مقام مسوری چلے گئے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی۔

ممتاز بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا جبکہ بیرسٹر کی ڈگری لندن کی یونیورسٹی آف لنکن سے لی۔

وہ پہلی بار 32 سال عمر میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ بعد میں ان کے کزن ذوالفقار علی بھٹو نے 30 مارچ، 1967 کو جب نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو وہ نہ صرف اس نئی پارٹی کے بانی رکن بنے بلکہ پرنسپل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی بنے۔

1970 کے عام انتخابات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئے تو انہوں نے ممتازبھٹو کو 24 دسمبر، 1971 کو گورنر سندھ نامزد کردیا جبکہ یکم مئی، 1972 کو وہ سندھ کے آٹھویں وزیر اعلیٰ بنے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے منصب کا حلف لینے کے چند ماہ بعد تین جولائی، 1972 کو ان کی حکومت نے سندھ اسمبلی میں صوبے کی سرکاری (دفتری) زبان صرف سندھی کرنے سے متعلق ایک بل جمع کروایا۔

اس بل کے جمع ہونے کے بعد صوبائی دارالحکومت کراچی میں پرتشدد ہنگامے شروع ہو گئے جو کئی ماہ تک جاری رہے۔

اس ہنگامہ آرائی کے دوران روزنامہ جنگ نے رئیس امروہوی کی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کو پہلے صحفے پر لیڈ کے طور پر چھاپا۔

ہنگامہ آرائی ختم ہونے کے بعد ایک تقریر میں ممتاز بھٹو نے کہا کہ اگر خدا انہیں 10 سر بھی دیتا تو وہ ان سب کو سندھی زبان کے لیے قربان کر دیتے۔ سندھ میں کچھ لوگ انہیں 'ڈہیسر' یعنی 10 سروں والے نام سے بھی پُکارتے تھے۔

شدید ہنگامہ آرائی کے باجود ممتاز بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر صوبائی اسمبلی سے بل منظور کروا لیا۔

بل کی منظوری کے بعد سندھی زبان کو صوبے کی واحد سرکاری (دفتری) زبان قرار دیا گیا اور تمام سرکاری اور عدالتی امور سندھی زبان میں چلانے سمیت صوبے کے تعلیمی اداروں میں سندھی زبان لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جانے لگی۔

مارچ 1977 میں ممتاز بھٹو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد میں وفاقی وزیر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں 1977 میں پیپلزپارٹی سندھ کا صدر نامزد کیا۔

سابق فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا تو احتجاج پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں جلاوطن کردیا گیا۔

بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی سے ان کی راہیں الگ ہوگئیں۔ جلاوطنی کے دوران انہوں نے لندن میں 'سندھی، بلوچ، پشتون فرنٹ' کے نام سے اتحاد قائم کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بے نظیر بھٹوکے پہلے دورحکومت کے دوران 1989 میں ممتاز بھٹو نے وطن واپسی پرایک نئی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ( ایس این ایف) کی بنیاد رکھی۔

وہ 1993 ایس این ایف کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور 1996 میں انہیں نگران وزیر اعلیٰ سندھ نامزد کیا گیا۔

جنوری 2009 میں ممتاز بھٹو کو ایک سندھی اخبار پر مبینہ حملے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے اس مقدمے میں عدالت سے ضمانت کروا لی۔ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

2013 کے الیکشن سے پہلے ممتاز علی بھٹو نے اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کردیا مگر اس کی قیادت سے اختلاف کے بعد انہوں نے الگ ہو کر سندھ نیشنل فرنٹ کو دوبارہ بحال کردیا۔

2017 میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا مگر یہ اتحاد بھی دیر تک نہ چل سکا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست