کشتی رانی: پانچ احتیاطی تدابیر جو آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہیں

ریسکیو 1122 کے اعد اد و شمار کے مطابق جولائی 2020 سے 18 جولائی 2021 تک خیبر پختونخوا میں 732 افراد ڈوب گئے ہیں جس میں سب سے زیادہ واقعات ضلع سوات کے ہیں۔

ریسکیو 1122 ڈائریکٹر جنرل خیبر پختونخوا ڈاکٹر خطیر احمد نے بتایا کہ ڈوبنے والے افراد میں زیادہ تعداد سیاحتی مقامات یا دریاؤں میں نہانے کے دوران ڈوبنے کی ہیں۔(تصویر: اے ایف پی)

 خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے راغگان نامی ڈیم میں کشتیاں الٹنے کی وجہ سے ڈوبنے والے سیاحوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو 1122 کا آپریشن تیسرے روز بھی جاری ہے جس میں اب تک 11 افراد کو نکالا جا چکا ہے جن میں سے چار کی موت واقع ہوئی ہے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق سیاح راغگان ڈیم میں کشتی رانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایک کشتی الٹنے کی وجہ سے سیاح ڈوب گئے، جب دوسری کشتی ان کو بچانے آئی تو وہ بھی ڈوب گئی۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مجموعی طور پر کم از کم 15 افراد ڈوب گئے تھے جس میں سے اب تک 11 افراد کو نکالا گیا ہے جس میں چار ہلاک جب کہ باقی کا علاج معالجہ جاری ہے۔

باجوڑ واقعے پر وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تمام لوگوں کو نکالنے کے لیے آپریشن میں ہر قسم کی امداد کی ہدایت کی ہے۔ سیاحوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو 1122 باجوڑ، سوات، پشاور اور دیر پائین کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں ۔

باجوڑ میں پانی میں سیاحوں کے ڈوبنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی سیاحتی مقامات پر ایسے سینکڑوں واقعات سامنے آئے ہیں۔ ریسکیو 1122 کے اعد اد و شمار کے مطابق جولائی 2020 سے 18 جولائی 2021 تک خیبر پختونخوا میں 732 افراد ڈوب گئے ہیں جس میں سب سے زیادہ واقعات ضلع سوات کے ہیں۔

اسی طرح دوسرے نمبر پر 75 افراد ضلع پشاور کے مختلف مقامات میں ڈوبے جب کہ تیسرے نمبر پر 73 افراد ضلع نوشہرہ میں ڈوبے ہیں۔ ریسکیو 1122 ڈائریکٹر جنرل خیبر پختونخوا ڈاکٹر خطیر احمد نے بتایا کہ ڈوبنے والے افراد میں زیادہ تعداد سیاحتی مقامات یا دریاؤں میں نہانے کے دوران ڈوبنے کی ہیں۔

ریسکیو 1122 صوبے میں کسی بھی قدرتی یا دیگر آفات کے دوران مدد فراہم کرنے والا ادارہ ہے جو صوبے کے 32 اضلاع میں سروسز فراہم کر رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خطیر احمد سے اس سلسلے میں بات کی ہے کہ کسی بھی سیاحتی مقام جہاں پر نہانے یا کشتی رانی کا بندوبست موجود ہو، وہاں سیاحوں کو کیا احتیاطی تدابیر اپنانی چاہیئں۔

پانی کا سطح اور دیگر عوامل

ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خطیر احمد نے بتایا کہ کسی بھی سیاح کو سیاحتی مقام پر پانی کی سطح، رفتار اور بہاؤ کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاکہ سیاح کو اندازہ ہو کہ کشتی رانی یا نہانے کے لیے پانی کتنا موزوں ہے جبکہ یہ ذمہ داری کسی بھی سیاحتی مقام کی انتظامیہ کی بھی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پانی کی سطح کشتی رانی یا نہانے کے لیے موزوں ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر خطیر کے مطابق یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سیاح جس پانی یا دریا میں نہا رہے ہیں، وہاں پر پتھر وغیرہ تو موجود نہیں (جس سے نہانے کے دوران زخمی ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے)۔

ڈاکٹر خطیر کے مطابق سیاح موسم کے حوالے سے موبائل پر موجود ایپلیکشن سمیت اسی علاقے یا محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ کو چیک کر کے پتہ لگا سکتے ہیں کہ جس مقام پر وہ جا رہے ہیں، وہاں پر بارش یا کسی طوفان کا خدشہ تو نہیں جس سے پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے اور وہاں پر نہانا یا کشتی رانی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی حوالے سے صوبائی حکومت نے ریسکیو 1122 کی جانب سے ایک ضابطہ اخلاق بھی بنایا ہوا ہے جس کے تحت خراب موسم کی وجہ سے کسی بھی سیاحتی مقام، جہاں کشتی رانی ہو، پر چھ گھنٹے قبل اس کی تشہیر ضروری ہے کہ فلاں جگہ میں خراب موسم یا بارش کی وجہ سے پانی کی سطح بلند ہونے کا خدشہ ہے۔

لائف جیکٹ پہننا ’نہایت ضروری‘

ریسکیو 1122 کی جانب سے دو سال پہلے باقاعدہ طور پر ایک سیاحتی مقام جہاں کشتی رانی وغیرہ کا بندوبست ہو تو اس کے لیے ایس او پیز (قواعد و ضوابط) مرتب کی گئی ہیں جن کی صوبائی حکومت نے توثیق بھی کی ہے۔ ان ایس او پیز کے تحت کشتی رانی میں استعمال ہونے والی کشتیوں میں پر فی مسافر لائف سیونگ جیکٹ ہونا لازمی ہے اور ہر سوار کے لیے جیکٹ کشتی میں سوار ہونے سے لے کر اترنے تک پہننا لازمی ہے۔

ایس او پیز کے مطابق کشتی میں لائف سیونگ جیکٹ سمیت ایمرجنسی کے دوران پانی میں تیرنے کے لیے استعمال ہونے والی ڈیوائس جس کو فلوٹنگ ڈیوائس بھی کہتے ہیں، ہونا بھی ضروری ہے اور یہ کشتی میں ایک نمایاں نظر آنے والے جگہ پر لٹکانا ضروری ہے تاکہ ایمرجنسی کے دوران آسانی سے استعمال کی جا سکے۔

ڈاکٹر خطیر احمد نے بتایا کہ لائف جیکٹ پہننا سیاح کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی جیکٹ سے ایمرجنسی کے دوران کسی انسان کی جان بچائی جا سکتی ہے اور جیکٹ پہننے سے وہ پانی میں ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔

’سیاح دیکھیں کہ کشتی میں کتنے افراد سوار ہیں‘

کشتی رانی ایس او پیز کے تحت کشتیوں کو باقاعدہ ایک فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے اور اسی کشتی کو وقتاً فوقتاً چیک کرنا بھی لازمی ہے جبکہ کشتیوں میں مسافروں کی ایک مخصوص تعداد ہی سفر کر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر خطیر نے بتایا کہ کشتی رانی کے دوران ڈوبنے کے زیادہ تر واقعات کشتی میں اوور لوڈنگ کی وجہ سے ہوتے ہیں اس لیے سیاح اس بات کو یقینی بنائیں کہ کشتی میں حد سے زیادہ افراد سوار تو نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر خطیر نے بتایا: ’ایس او پیز کے تحت یہ کشتی رانی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صلاحیت سے زیادہ لوگ کشتی میں سوار نہ کریں اور باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹ بھی متعلقہ ادارے سے ضرور حاصل کریں۔‘

نمایاں جگہ پر نہائیں

کشتی رانی کی بات تو ہوگئی لیکن اب اگر کوئی سیاح کسی دریا میں نہانا چاہتا ہے تو ڈاکٹر خطیر کے مطابق ہر کسی کو ایک نمایاں جگہ پر نہانا چاہیے جبکہ ان کے آس پاس دیگر لوگ بھی ہونے چاہیئں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے پیچھے راز یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی شخص نہانے کے دوران ڈوب رہا ہے تو ان کے آس پاس افراد ان کو بچانے کے لیے جلدی پہنچ سکتے ہے۔

ڈاکٹر خطیر نے بتایا: ’میرے خیال میں وہ افراد جن کو تیرنا نہیں آتا، ان کو ایسے مقامات پر نہیں نہانا چاہیے کیونکہ اگر تیراکی سے بندہ خود کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔‘

پانی کے ساتھ نہ کھیلیں

ڈاکٹر خطیر نے بتایا کہ ایک ضروری احتیاط یہ بھی ہے کہ پانی کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے یعنی اگر آپ دوستوں کے ساتھ کسی سیاحتی مقام پر گئے ہیں، تو وہاں پر نہاتے وقت پانی کے اندر سانس بند کرنے کا گیم اور اسی طرح دیگر چیزیں نہیں کرنی چاہیے بلکہ سب دوست ایک ہی جگہ پر بہت احتیاط سے نہائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان