پاکستان کے اس حال سے خائف ضرور ہوں

کیا پاکستان میں شرافت، انسانیت اور بلند کردار قدریں یتیم ہو گئی ہیں؟ کیا کوئی ان کا رکھوالا نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے جو کرتا دھرتا ہیں ان سب نے سوچ لیا ہے کہ اپنے اہداف پانے کے لیے بس گالم گلوچ چلے گی۔

نور مقدم کے قتل کیس میں انصاف کے مطالبے میں لاہور میں ایک مظاہرہ (اے ایف پی)

اسلام آباد میں جمعرات کی رات اشرافیہ کے علاقے ایف سیون میں ایک گھناونا قتل ہوا۔ اس جرم نے  پاکستان اور خصوصاً دارالحکومت کے لوگوں کو صدمے اور غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔

جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو تمام شواہد موجود تھے۔ جس طریقے سے قتل کیا گیا جو بھی آلہ استعمال کیا گیا، خاص طور پر چاقو سب مل گئے۔ ملزم پکڑا بھی گیا ہے۔

یہ گھناؤنا قتل جیسے کسی درندگی کو بھی شرمندہ کر دے۔ سوالات، خدشات اور بہت سے پریشان کن خیالات نے جنم لیا۔ ملزم بظاہر ایک معمول کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس شخص کو نفسیاتی مسائل تھے۔ تھراپی ورکس نامی ادارے کے مطابق وہ ٹھیک بھی ہو گیا تھا۔

اب تو وہ دوسرے لوگوں کی تھراپی کر رہا تھا انہیں تربیت دے رہا تھا۔ قتل سے چار روز پہلے اس نے ایک مقامی سکول میں جا کر تھراپی پر ایک لکچر بھی دیا۔ لیکن اس سب کے باوجود جو اس اندر ایک درندگی تھی ایک حیوانیت تھی وہ تڑپ رہی تھی۔ اور آخر کار اس نے مبینہ طور پر ایک معصوم بے گناہ بچی کی جان لے لی۔

اس دلخراش واقعے کی تفصیلات جیسے جیسے سامنے آتی جا رہی ہیں وہ ذہن کو بھی ماؤف کر رہی ہیں۔ لیکن ایک بنیادی بات سے بنیادی حقیقت سے انحراف کرنا بڑا مشکل ہے کہ جب ٓکوئی بچہ جنم لیتا ہے تو درندگی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ آخر کہیں اس کی پرورش کے دوران یا اس کے بچپن یا جوانی کے حالات میں کچھ ایسا پیش  آتا ہے جو اس کو اس نہج پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔

بہرحال سوال اٹھتے رہیں گے اور ان کے جوابات والدین اور ہر معاشرے کو دینے ہوں گے۔ لیکن یہ جو عید کی رات قتل ہوا ہے اس میں ہر صورت انصاف ہونا چاہیے۔ معاشرے کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ جو قاتل ہے اس کو قانون کے مطابق سخت سزا ملے۔

قانون کے مطابق سزا یا انصاف کی جانب جو پہلا قدم ہے وہ ریاست پولیس کی تحقیقات کے ذریعے اٹھاتی ہے۔ یہ تفتیش ایف آئی آر پر مبنی صحیح صاف شفاف اور بےانتہا پروفیشنل طریقے سے ہو۔ یہ کیس ایک ایسا کیس ہے جس پر سب کی نظر ہے اور رہے گی۔

شاید یہ بھی کہنا پڑے کہ کچھ زیادہ ہی نظر ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر جو بڑی تعداد میں بلاگرز، وی لاگرز ہیں وہ اس ایشو پر بیسیوں ویڈیوز بنا چکے ہیں۔ ان میں چند حقائق پر مبنی ہیں اور بعض محض قیاس آرائیاں ہیں۔ ان میں غیرمصدقہ ذرائع سے باتیں سامنے لائی گئی ہیں۔ ان کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔

اس میں کسی کو شک نہیں کہ انصاف بڑا لازمی ہے۔ سزا بڑی لازمی ہے۔ معاشرے کو اگر چلنا ہے تو قانون کا نفاذ بغیر کسی اثر رسوخ کے ہونا بڑا لازمی ہے۔ جب قانون کا نفاذ ہو گا تو سوال بھی بہت سے اٹھیں گے۔ ایک سوال ملزم کے والدین کی ذمہ داری کے بارے میں اٹھے گا۔ اب جو نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں اس بارے میں یہ بہت اہم سوال ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک معاشرے میں ماں باپ اپنی ذمہ داری کو اولاد کی طرف معاشرے کی طرف صحیح طریقے سے کیسے نبھاتے ہیں یہ بہت بڑا سوال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے ساتھ ساتھ جو نتھی سوال ہیں وہ یہ ہیں کہ معاشرے میں سوچ کس طرح پروان چڑھتی ہے۔ کس سمت ہماری سوچ جا رہی ہے۔ باتیں کیا سننے کو ملتی ہیں الفاظ کیا ادا ہوتے ہیں۔ ان الفاظ سے احساس، انسانیت سچ، اعتدال پسندی کو جنم دیا جاتا ہے یا نہیں۔

یا پھر جو باتیں کہی جاتی ہیں جو الفاظ ادا ہوتے ہیں اس سے ہم اپنے بچوں کی، اپنے نوجوانوں کی، اپنے پاکستان کے شہریوں کی کس طرح کی سوچ پروان چڑھا رہے ہیں۔ کیا ان میں شیطانیت، بےحسی، غصہ، لڑائی، بے اصولی، لا قانونیت کیا ہم اس چیز کو پروان چڑھا رہے ہیں؟ کیا جو اس معاشرے کے کرتا دھرتا ہیں جس میں حکومتیں ہیں، ریاست ہے، سیاست ہے، سیاست دان ہیں، آپ اور ہم ہیں جو پڑھنے لکھنے والے ہیں،  ہم ان اقدار کو کیا سمجھتے ہیں جو انسان کی روح کا وہ معیار پرکھتی ہیں جس کے نتیجے میں خدا نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ 

کل کے اخبار میں پڑھ لیجیے گا جہاں دو جوڑوں کو گھر والوں نے درختوں سے لٹکا دیا کیونکہ انہوں نے شادی اپنی مرضی سے کی تھی۔ نہ مذہب منع کرتا ہے اور نہ پاکستان کا قانون بالغ لوگوں کو مرضی کی شادی سے منع کرتا ہے۔ لیکن یہ ہر چیز کی نفی کر کے جب اس طرح کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں پھر قانون کیا کرتا ہے؟ معاشرہ کیا کرتا ہے؟

اور پھر کیا کہیں وزیر اعظم عمران خان سٹیج پر بیٹھے ہیں اور ان کے وزیر علی امین گنڈاپور کیا کیا باتیں کر رہے ہیں، کیسی کیسی سوچ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں۔ کس کو تھپڑ ماریں کس کا منہ نوچیں کس کو کس کا اصلی چہرہ دکھائیں؟ کس کا پیٹ پھاڑیں؟ کس کی خوبصورتی کو عوام کی ملکیت قرار دیا جا رہا ہے؟ یہ سب کہاں کی گھٹیا باتیں ہیں؟

کیا پاکستان میں شرافت، انسانیت اور بلند کردار کی قدریں یتیم ہو گئی ہیں؟ کیا کوئی ان کا رکھوالا نہیں ہے؟ کیا کوئی ان کو یہاں پنپنے نہیں دے گا؟ کیا پاکستان کے جو کرتا دھرتا ہیں جو سیاست دان ہیں کیا ان سب نے سوچ لیا ہے کہ اپنے اہداف پانے کے لیے بس گالم گلوچ چلے گی۔

افسوس صد افسوس!

 

نوٹ: یہ تجزیہ مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ