بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) وجے کمار نے کہا ہے کہ پولیس اور فوج نے ضلع پلوامہ میں ایک مشترکہ کارروائی کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے ایک قریبی رشتہ دار سمیت دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
انہوں نے مولانا مسعود اظہر کے مبینہ رشتہ دار کی شناخت محمد اسماعیل علوی عرف لمبو عرف عدنان کے طور پر کی ہے جو ان کے بقول ’جیش محمد‘ کے اعلیٰ ترین کمانڈر تھے۔
26 سالہ محمد اسماعیل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور کے رہائشی تھے اور مبینہ طور پر مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرؤف اصغر کے ذاتی محافظ رہ چکے ہیں۔ ان کا قد سات فٹ کے قریب تھا۔
وجے کمار نے الزام لگایا کہ محمد اسماعیل 14 فروری 2019 کو ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ میں ہونے والے ہلاکت خیز خودکش حملے کی سازش اور منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔
پلوامہ خودکش حملے میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے کم از کم 40 اہلکار مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
آئی جی پی وجے کمار نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ضلعے پلوامہ کے ہانگل مرگ داچھی گام جنگلی علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر پولیس اور فوج نے مذکورہ علاقے میں ہفتے کو علی الصبح ایک مشترکہ کارڈن اینڈ سرچ آپریشن کیا۔
وجے کمار کے مطابق: ’علاقے میں موجود عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس کے بعد فریقین کے درمیان جھڑپ شروع ہوگئی جو دو عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے دونوں عسکریت پسند کالعدم تنظیم ’جیش محمد‘ کے ساتھ منسلک تھے۔
پولیس چیف کے مطابق: ’ایک کی شناخت مسعود اظہر کے قریبی رشتہ دار محمد اسماعیل علوی کے طور پر ہوئی ہے جبکہ دوسرے کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جس کے لیے سکیورٹی فورسز مبارکبادی کے مستحق ہیں۔‘
بعد ازاں جاری کیے جانے والے بیان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے دوسرے عسکریت پسند کی شناخت سمیر ڈار کے نام سے ہوئی ہے جو پلوامہ کے حملے میں شامل تھے۔
وجے کمار کا مزید کہنا تھا کہ ’محمد اسماعیل 2017 میں سرحد کے اس پار داخل ہوئے اور تب سے جنوبی کشمیر میں سرگرم تھے۔ وہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث تھے۔ ان کے خلاف 14 مقدمات درج ہیں۔‘
سری نگر میں قائم بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان نے بتایا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کے قبضے سے ایک ایم 4 رائفل اور ایک اے کے رائفل برآمد کی گئی ہے۔
پندرہویں کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ مسعود اظہر کے رشتہ دار محمد اسماعیل نے ہی پلوامہ حملہ انجام دینے والے کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار کو تربیت دی تھی۔
ان کے مطابق ’تب سے لے کر اب تک وہ لوگوں کو امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس (آئی ای ڈی) بنانے اور ان آئی ای ڈیز کو سکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کرنے کی تربیت دیتے رہے ہیں۔ وہ مقامی نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل کرانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔‘
آئی جی پی وجے کمار نے کہا کہ محمد اسماعیل اور سمیر ڈار کا نام پلوامہ حملے کی تفتیش کرنے والی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے کی چارج شیٹ میں بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملے میں 19 عسکریت پسند اور ان کے اعانت کار ملوث تھے۔
وجے کمار کے مطابق ’ان میں سے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ سات دہشت گردوں/ او جی ڈبلیوز کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پانچ ملزمان مفرور ہیں۔‘
واضح رہے کہ این آئی اے نے 25 اگست 2020 کو کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں کی ایک عدالت میں پلوامہ حملے کے سلسلے میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر، ان کے بھائیوں عبدالرؤف اصغر و عمار علوی، بھتیجے عمر فاروق اور رشتہ دار محمد اسماعیل علوی سمیت 19 ملزمان کے خلاف فرد جرم داخل کر دی تھی۔
ان 19 ملزمان میں سے سات پاکستانی جبکہ دیگر 12 کشمیری ہیں جن میں ایک جواں سال کشمیری خاتون بھی شامل ہیں۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ خودکش حملہ کرنے والے کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار سمیت چھ ملزمان ایسے ہیں جو پہلے ہی مارے جا چکے ہیں۔
’فرد جرم‘ 13 ہزار 800 صفحات پر مشتمل تھی۔ اس میں مسعود اظہر اور ان کے بھائی عبدالرؤف اصغر کو ’پلوامہ حملے‘ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔
جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر بھارت میں پہلے سے کئی مقدمات بشمول ممبئی حملے میں سکیورٹی اداروں کو مطلوب ہیں۔
پلوامہ حملے کے بعد
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ علاقے میں 14 فروری 2019 کو کشمیر شاہراہ پر ایک زوردار اور ہلاکت خیز دھماکہ ہوا تھا۔
یہ وادی میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خود کش دھماکہ تھا جس کو ضلع پلوامہ کے کاکہ پورہ سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ نوجوان عادل احمد ڈار عرف وقاص نے انجام دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلوامہ حملے کے بعد بھارت اور پاکستان ایک اور جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ بھارت نے انتقامی کارروائی کے تحت 26 فروری کو پاکستانی حدود میں داخل ہو کر بالاکوٹ پر حملہ کیا تھا۔
تاہم پاکستان نے بھی کشمیر میں داخل ہو کر جوابی کارروائی عمل میں لائی تھی جسے ’سرپرائز‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس دوران پاکستان نے بھارت کا ایک جنگی طیارہ گرا کر ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کیا تھا جنہیں بعد ازاں پاکستان نے بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کی رائے
دفاعی تجزیہ کاروں ے مطابق سال 1971 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ دونوں ممالک کے جنگی طیاروں نے ایک دوسرے کی سرحدوں کو پار کر کے کارروائیاں کی تھیں۔
پلوامہ حملے کے بعد جہاں کشمیر شاہراہ پر سکیورٹی فورسز کانوائے کی آمد ورفت کے لیے دو دن مخصوص رکھے گئے تھے وہیں بھارت کی مختلف ریاستوں میں مقیم کشمیریوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کئی طلبا اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر واپس لوٹے تھے۔
بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے یکطرفہ فیصلے جن میں خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی اور ایک تاریخی ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنا شامل ہیں، کا اصل محرک پلوامہ حملہ ہی تھا۔
پلوامہ حملے کے بعد ہی بھارت نے کشمیر میں اسلام آباد (اوڑی) اور چکاں دا باغ (پونچھ) کراسنگ پوائنٹس پر ہونے والی دو طرفہ تجارت معطل کی تھی جو ابھی تک معطل ہی ہے۔