بیروت دھماکے کی ذمہ دار حکام کی ’مجرمانہ غفلت‘: ہیومن رائٹس واچ

گذشتہ سال چار اگست کو بیروت کی بندرگاہ پر چھ سال سے غیر محفوظ انداز میں موجود امونیم نائٹریٹ کھاد کے دھماکے میں دو سو زائد افراد ہلاک اور دارالحکومت کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لبنان کی سکیورٹی ایجنسی نے بھی اس خطرے کو رپورٹ کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا اور اعلی حکام کو اس خطرے سے بروقت آگاہ نہ کر سکی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے لبنانی حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’گذشتہ سال بیروت کے پورٹ پر ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری حکام کی مجرمانہ غفلت پر عائد ہوتی ہے جو متعدد وارننگز کے باوجود خطرناک مواد کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔‘ 

 منگل کو جاری کیے جانے والے بیان میں انسانی حقوق کے نگران ادارے نے بیروت دھماکے کی آزادانہ تحقیقات اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرنے کی سفارش کی ہے۔ بیان میں لبنان کے اعلی حکام پر بین الااقوامی پابندیاں عائد کرنے کے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔

گذشتہ سال چار اگست کو بیروت کے پورٹ پر چھ سال سے غیر محفوظ انداز میں موجود امونیم نائٹریٹ کھاد کے دھماکے میں دو سو زائد افراد ہلاک اور دارالحکومت کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ یہ دنیا میں ہونے والے بڑے غیر جوہری دھماکوں میں سے ایک دھماکہ تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دھماکے کے متاثرین اور لبنانی عوام عمومی طور پر اس دھماکے کو حکمران طبقے کی نا اہلی اور بدعنوانی کا نتیجہ سمجھتی ہے لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود کسی سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔

اس افسوس ناک سانحے کو ایک سال مکمل ہونے سے ایک دن قبل جاری کی جانے والی 126 صفحات کی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے ان اعلی حکام کی نشاندہی کی ہے جو اس مواد کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ ان افراد میں لبنانی حکومت، کسٹمز اور فوج کے علاوہ سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق: کئی لبنانی حکام اس معاملے کے حوالے سے لبنانی قوانین کے تحت مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں سرکاری حکام کی خط و کتابت اور ایسے مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہوا تھا۔

اس رپورٹ کا نام: ’دے کلڈ اس فرام دی ان سائڈ: چار اگست بیروت میں ہونے والے دھماکے کی تحقیق‘ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں لبنانی حکام پر انسانی زندگی کے حق کی خلاف ورزی کرنے اور ان کے اقدامات کو ملکی قوانین کے تحت قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی تحقیقات کے مطابق بیروت میں سال 2013 کے دوران اس کیمیکل کی آمد کے ساتھ ہی غلطیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ کیمیکل رہوسس نامی جہاز میں جارجیا سے موزنبیقجا رہا تھا اور مبینہ طور پر مالدوا کے پرچم کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ’وزارت پبلک ورکس اور ٹرانسپورٹ حکام نے اس جہاز پر لدے سامان کے خطرے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ جب کہ دوسری جانب کسٹمزحکام بھی اس مواد کو یہاں سے منتقل کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے سے قاصر رہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لبنانی فوج نے بھی یہ جاننے کے بعد کہ یہ مواد دھماکہ خیز مواد تیار کرنے میں استعمال ہو سکتا ہے اس مواد کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ بلکہ اس نے ذمہ داری نہ لیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اسے اس کیمکل کی کوئی ضرورت نہیں ہے حتی کے لبنانی قوانین کے تحت لبنانی فوج پر یہ لازم ہے کہ وہ ایسے مواد کا جائزہ لے جس سے دھماکہ خیز مواد تیار کیا جا سکتا ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق لبنان کی سکیورٹی ایجنسی نے بھی اس خطرے کو رپورٹ کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا اور اعلی حکام کو اس خطرے سے بروقت آگاہ نہ کر سکی۔

سابق وزیر اعطم حسن دیاب کو جون میں اس مواد کی پورٹ پر موجودگی سے آگاہ کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم نے ہیومن رائٹس واچ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں اس بارے میں بھول چکا تھا اور کسی نے دوبارہ اس حوالے سے بات نہیں کی۔ ایسے حادثے روز ہوتے ہیں۔‘

علاوہ ازیں سابق وزیر اعظم اور لبنانی صدر کو بھی جولائی کے اواخر میں سکیورٹی ادارے نے اس حوالے سے رپورٹ پیش کی لیکن یہ دونوں شخصیات بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے سے قاصر رہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ’مقامی تحقیقات میں انصاف کی فراہمی میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس لیے اس کی تحقیقات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے تحت ہونی چاہییں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا