وکلا کا نو ستمبر کو ملک گیر ہڑتال اور دھرنے کا اعلان

وکلا کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس احمد علی شیخ کو سپریم کورٹ میں 17 اگست کو خالی ہونے والی نشست پر مستقل جج کے طور پر تعینات کیا جائے۔

پاکستانی وکلا پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے شہدائے کوئٹہ ہال میں ہفتے کو آل پاکستان وکلا کنوینشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طے کیا گیا ہے کہ نو ستمبر کو ملک بھر کی عدالتوں میں ہڑتال کی جائے گی اور ججوں کی تقرری میں سینیارٹی کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جائے گی۔

کنوینشن میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار ایسوسی ایشن سمیت ملک بھر کے بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں اور سینئیر وکلا نے شرکت کی۔

آل پاکستان وکلا کنوینشن میں سندھ ہائی کورٹ کے جونئیر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے فیصلے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور ہوئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس احمد علی شیخ کو سپریم کورٹ میں 17 اگست کو خالی ہونے والی نشست پر مستقل جج کے طور پر تعینات کیا جائے۔

انڈپینڈںٹ اردو کو حاصل ہونے والی قرارداد کی کاپی کے مطابق 26 اگست کو ملتان میں پاکستان بھر کے وکلا کا کنونشن ہوگا۔

اس قرارداد میں وکلا کی جانب سے ججز کی تقرری کے لیے طے شدہ اصولوں پر عملدرآمد کرنے، بینچوں کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم کرنے اور تیار کمیٹی کو سپورٹ کرنے، چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات کو کم اور مزید واضح کرنے کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کو ہر سطح پر ججوں کی تقرری کے لیے شفاف و معروضی معیار و اصول وضع کرنے چاہییں۔

وکلا نے مطالبہ کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے قاعدے میں ضروری ترامیم بھی لائی جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک مستقل کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی جو بار ایسوسی ایشنز کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرے اور جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے میں سنیارٹی کے اصول پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔

اس کے علاوہ قرارداد میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کی سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کے طور پر تقرری غیر آئینی ہے۔ لہذا، سینئر ترین جج ہونے کے ناطے انہیں جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی جگہ پر سپریم کورٹ میں مستقل جج کے طور پر تعینات کیا جائے۔

قرار داد میں کہا گیا کہ آل پاکستان وکلا کنونشن کے مطابق 19 ویں ترمیم نے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان توازن کو بگاڑ دیا ہے اور ججوں کو اپنی مرضی کے مطابق مزید تقرریاں کرنے کے لیے مکمل طور پر آزادی دے دی ہے۔

تاہم، تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس کی مذمت کریں۔

آل پاکستان وکلا کنوینشن کے حوالے سے جنرل سیکریٹری سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بیریسٹر عمر سومرو کا کہنا تھا کہ ’اس کنوینشن کے انعقاد کا مقصد عدلیہ کا تحفظ ہے۔ آئین کے مطابق ایڈہاک جج صرف اسی صورت میں تعینات کیا جا سکتا ہے جب اشد ضرورت ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل ایک جونئیر جج محمد علی مظہر کو بطور مستقل جج تعینات کیا جاچکا ہے جبکہ ہمارے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو کہا جارہا ہے کہ ایڈہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ آئیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کا یہ فیصلہ توہین آمیز ہے۔ جوڈیشل کمیشن کس طرح چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی توہین کرسکتا ہے۔‘

اس موقعے پر لطیف آفریدی صدر سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کا کہنا تھا کہ ’نو ستمبر کو ملک بھر کی عدالتوں میں ہڑتال ہوگی۔ سینیارٹی کے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ دھرنا بھی ہوگا اور مرنا بھی ہوگا۔‘

انہوں نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی وزیر قانون کی صلاحیتیں اور ڈگری بھی مشکوک ہے۔ سندھ بار کونسل ان کی ڈگری کی جانچ پڑتال کرے۔‘

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان کےااس کنوینشن کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’پاکستان بار کونسل نے بھی نو ستمبر کو ہڑتال اور دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔  جسٹس محمد علی مظہر کی تقرری میں اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ جونیئر ججز کی تعیناتی آئین کے خلاف ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں پسند نا پسند کی بنیاد پر تقرری ناقابل قبول ہے۔ ایڈ ہاک تقرری کے بجاۓ مستقل تعیناتی کی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک بھی جونیئر جج ہیں سپریم کورٹ میں، اس لیے ان کی تعئناتی قابل قبول نہیں۔ ہم اصولوں پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی تمام سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جونیئر ججز کی تعیناتی کے خلاف وکیلوں کے احتجاج کا ایک یہ بھی سبب ہے کہ  2022 کے شروع کے آٹھ مہنیوں میں سپریم کورٹ کے سات ججز ریٹائر ہو رہے ہیں اور وکیلوں کو خدشہ ہے کہ اگر جونیئر ججز کی تعیناتی پر احتجاج نہ کیا گیا تو ریٹائرڈ ہونے والے ججوں کی جگہ جونیئر ججوں کو تعینات کیا جاسکتا ہے۔

2022 میں ریٹائر ہونے والے ججز میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان یکم فروری، جسٹس قاضی محمد امین 25 مارچ، جسٹس مقبول باقر چار اپریل، جسٹس مظہر عالم مندوخیل 13 جولائی اور جسٹس سجاد علی شاہ 13 اگست 2022 کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ سپریم کورٹ اسلام آباد میں ہونے والےجوڈیشل کمیشن کےاجلاس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ کی سپریم کورٹ میں ایڈہاک بنیاد تعیناتی کی سفارش کی گئی تھی لیکن سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایڈہاک تعیناتی سے پہلے ہی انکار کردیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان