’نائن الیون کی منحوس برسی‘

افغانستان سے انکل سام کے ذلت آمیز انخلا کے بعد واشنگٹن اور اس کے اتحادی سر کھجاتے ہوئے امریکی شراکت داری کی اعتباریت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

نائن الیون حملوں میں ہونے والے انسانی جانوں اور وسائل کے ضیاع کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ اس ہولناک تباہی کو ’نقصان‘ قرار دینا انسانیت کی توہین ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں بھی سن سکتے ہیں


پرل ہاربر کے بعد امریکہ کی سرزمین پر ہونے والے ہلاکت خیز ترین حملے کو کل 20 برس مکمل ہو جائیں گے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات نے 9/11 کی 20 ویں برسی کو کئی حوالوں سے اہم بنا دیا ہے۔ ان میں اہم ترین سیاسی پیش رفت کابل میں طالبان حکومت کی تقریب حلف برداری ہو گی۔

فتح اور شکست کے ملے جلے نعروں کی بازگشت میں دنیا نائن الیون حملوں کی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ امریکہ میں مختلف سٹرٹیجک اہداف کو مسافر طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے کے احمقانہ اقدام نے ان گنت افراد اور ملکوں کو نچلے بٹھا دیا۔ نائن الیون کی تباہ کاریوں کے اثرات سے متاثرین آج تک نہیں نکل پائے۔

11 ستمبر حملوں کے بعد امریکہ کی سرحد کے اس پار ہونے والی تباہی کی طویل تاریخ کا تازہ ترین نمونہ دل دہلا دینے والے وہ ہولناک مناظر ہیں جن میں مال بردار امریکی فوجی جہازوں کے پروں اور پہیوں سے لٹک کر افغانستان سے انخلا کی کوشش میں کئی نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انخلا کے عین عروج پر سینکڑوں افغانوں سمیت 13 میرینز بھی کابل ہوائی اڈے کے بم دھماکے کا نشانہ بنے۔

نائن الیون حملوں میں ہونے والے انسانی جانوں اور وسائل کے ضیاع کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ اس ہولناک تباہی کو ’نقصان‘ قرار دینا انسانیت کی توہین ہے کیونکہ بنی نوع انسان تادم تحریر ان حملوں کی بے حساب اجتماعی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ایسی ہلاکت خیزی کی مثال دونوں عالمی جنگوں کے دوران دیکھنے کو نہیں ملتی۔

مخصوص نظریات، سوچ اور فکر ہی نائن الیون حملوں کی بنیاد بنی۔ ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی خو میں یہ تباہ کن واقعہ رونما ہوا جسے آج تک ذہن سے کھرچا نہیں جا سکا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ حملوں کے محرک اور انہیں عملی جامہ پہنانے والے افراد کا تعلق عرب دنیا سے نکلا۔ وہ دہشت گردی کو اس کے حقیقی معنی پہنا کر ظالمانہ خواہشات کی تکمیل چاہتے تھے، لیکن اپنی اور بے گناہ انسانوں کی تباہی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

عراق کی جانب سے 1990 میں کویت پر افسوسناک قبضے کے بعد القاعدہ اور 9/11 کے روح رواں اسامہ بن لادن نے چند خلیجی ریاستوں کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے خلیجی قیادت کو اپنی احمقانہ سوچ کا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے ہوئے پیش کش کہ بین الاقوامی برادری کی جگہ وہ عراق کو کویت سے نکال باہر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ عرب قیادت کو قائل کرنے کے لئے وہ اس وقت کی دوسری بڑی عالمی طاقت روس کو افغانستان سے مار بھگانے میں اپنے ’کردار‘ کا کمال تفاخر کے ساتھ اظہار کرتے رہے۔

اس وقت کے متحدہ سوویت یونین کے ساتھ اسامہ بن لادن کے تنازع میں کئی ملکوں نے مؤخر الذکر کو مالی تعاون اور ضروری تحفظ فراہم کیا۔ سیاسی کوتاہ بینی، غلط اندازوں اور گمراہ کن نظریات کے اسیر بن کر آج بھی کئی ملک ایسے انتہا پسند دہشت گرد گروپوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد کر رہے ہیں۔

نائن الیون  کا معاملہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ عظیم سے ہٹ کر ہے۔ دونوں جنگیں ایک مخصوص ٹائم لائن کے بعد تاریخ کا حصہ بن گئیں جبکہ امریکہ کے خلاف ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تباہی کی بازگشت 20 برس بعد بھی سنائی دے رہی ہے۔

9/11 اور امریکہ۔سعودی تعلقات

امریکہ پر حملہ کرنے والے 19 میں سے 14 حملہ آوروں کا تعلق سعودی عرب کے جنوب مغربی علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ 11 ستمبر کے حملے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں نمایاں تبدیلی لانے میں عمل انگیز ثابت ہوئے۔ حملوں کے بعد آئے روز کی کشیدگی، تعاون کے وعدے، مالی فوائد اور غیر قانونی مخاصمت پر مبنی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاض ۔ واشنگٹن تعلقات کو کسی بھی پیمانے سے ’خاص‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسامہ بن لادن سعودی عرب کو شکست دینے میں ناکام ہوا تو حکومت نے انہیں 1990 میں ایک چانس دیتے ہوئے وطن واپس آنے کی پیش کش کی۔ انہوں نے یہ پیش کش مسترد کر دی اور سوڈان کو ہی اپنا ٹھکانا بنانے پر اصرار کیا، جس کے بعد ریاض نے 1991 میں اسامہ بن لادن کی سعودی شہریت منسوخ کر دی۔

اس فیصلے کے بعد اسامہ بن لادن کے دل میں ذاتی انتقام کا آلاؤ جل اٹھا اور انھوں سے سعودی عرب سے اس کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ امریکہ پر حملے کے منصوبہ ساز جانتے تھے کہ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان قریبی تعلقات کے ہوتے ہوئے وہ بلاد حرمین میں اپنا نام نہاد انقلابی ایجنڈا پورا نہیں کر سکتے۔ اسی لئے نائن الیون حملوں کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کا چناؤ سعودی عرب سے کیا گیا تاکہ حقیقت سامنے آنے پر امریکہ بپھر جائے اور اگلے ہی لمحے ریاض پر تین حرف بھیج کر اسے ایک مرتبہ پھر پتھر کے زمانے میں پہنچا دے۔

کسی حد تک اسامہ بن لادن امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب رہا، لیکن دوسری جانب وہ ان تعلقات کی گہرائی اور وسعت کا صحیح ادراک کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ نائن الیون حملے کے بعد بھی مد وجزر کے شکار امریکہ ۔ سعودی تعلقات قائم رہیں گے، لیکن اس سارے منظر نامے میں خود اسامہ کا وجود سمندر میں غتر بود ہو جائے گا۔

امریکہ نے اسامہ بن لادن کے حملوں کی سزا سعودی عرب کو دینے سے انکار کر دیا۔ حملوں کے فوری بعد امریکہ میں مقیم کئی سعودی سفارت کار، شہزادے اور شہزادیاں وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے حالانکہ حملوں کے چند گھنٹوں کے اندر ہی امریکہ نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی۔

اس وقت امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر بندر بن سلطان اور دوسرے اعلیٰ سرکاری عمال بخیریت وطن لوٹ آئے۔ امریکہ کو اگر نائن الیون حملوں میں مملکت کے ملوث ہونے کا ایک فیصد بھی یقین ہوتا تو کوئی بھی سعودی شہری امریکہ سے واپس نہ لوٹتا۔

جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں ری پبلیکن انتظامیہ سعودی عرب کو دوست مانتی رہی، تاہم امریکی عوام اور مخصوص لابی کے زیر اثر چلنے والے ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کو ایک مختلف زاویے سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ اور سعودی عرب کے فقید المثال تعلقات قائم تھے، لیکن اس واقعے کے بعد یہ حلقے مملکت کو ’مجسم شیطان‘ سمجھنے لگے۔

افغانستان میں القاعدہ پر حملہ

نائن الیون کے ایک مہینے بعد واشنگٹن نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان میں القاعدہ کے ٹریننگ کیمپوں پر حملہ کیا جہاں امریکہ پر حملوں کی مبینہ منصوبہ بندی کی گئی اور ان حملوں کا حکم دینے والے وہیں موجود تھے۔

دو برس بعد 2003 میں امریکہ نے بین الاقوامی فوجی اتحاد تشکیل دے کر عراق پر بھی حملہ کر دیا، جہاں مبینہ طور پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود تھا جو دنیا کے امن کے لیے شدید خطرہ بن سکتا تھا۔ شومئی قسمت یہ تباہ کن حملہ بھی غلط معلومات کی بنا پر کیا گیا۔

نائن الیون کس نے کیا؟

داخلی دباؤ کی وجہ سے امریکہ نے نائن الیون حملوں سے متعلق تفتیش کے لیے ایک وسیع البنیاد تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جس نے نہایت عرق ریزی سے اپنا کام مکمل کیا۔ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکہ پر حملوں میں سعودی عرب براہ راست ملوث نہیں۔ یہ مملکت سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر ناراض ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کی کارروائی تھی۔

انسانی حقوق کے بخار میں مبتلا مٹھی بھر امریکی وکلا کے ایک گروپ نے مہم چلائی کہ نائن الیون کے حملوں میں ہلاک وزخمی ہونے والوں کے لواحقین کو حق ملنا چاہئے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف ہرجانے کا دعوی دائر کر سکتے ہیں۔ انہی وکلا نے گذشتہ برس ایک سماعت کے دوران کچھ ایسی’خفیہ دستاویزات‘ پیش کیں جن ذریعے وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حملہ سعودی حکومت کے ایما پر کیا گیا یا اس شرمناک کارروائی کا محرک چند نان سٹیٹ ایکٹر تھے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے محکمہ انصاف کو گذشتہ ہفتے حکم دیا کہ وہ 9/11 حملوں کے بارے میں وفاقی ادارہ تحقیقات (ایف بی آئی) کی تحقیقات سے متعلق دستاویزات کو جائزہ لے کر ’ڈی کلاسیفائی‘ کر دے اور انھیں عوام کے لیے جاری کر دے۔

اب 11 ستمبر کے حملوں کی تحقیقات سے متعلق سابقہ مواد مثلاً 28 صفحات کے اجرا نے تحقیقاتی کمیشن کے اس انکشاف کی تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب کا اس بھیانک جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

امریکہ میں سعودی سفارت خانے نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس طرح تمام تر حقائق منظر عام پر آنے کے باوجود سعودی عرب کے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی دعوے برقرار ہیں۔

کیا غلطیاں صرف القاعدہ نے کیں؟

نائن الیون حملوں کے بعد امریکی سیاسی نظام نے بڑی حد تک ہم آہنگ طریقے سے کام کیا۔ واشنگٹن کو اپنے اتحادیوں کی پشتی بانی بھی میسر رہی۔ کیا آج افغانستان سے منحوس انخلا کے بعد واشنگٹن یا کوئی غیر جانبدار یہ دعویٰ کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں! واشنگٹن میں الزام تراشی کا بازار گرم ہے اور اس کے اتحادی سر کھجاتے ہوئے امریکی شراکت داری کی اعبتاریت پر سوال اٹھا رہے ہیں!

کالم نگار کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ بش انتظامیہ نے نائن الیون حملوں کو روز اول ہی سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ قرار دے کر ہمالیہ سے بڑی غلطی کی۔ جس معاملے کو پولیس کیس بنا تفتیش ممکن تھی، اسے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا ہدف بنا دیا گیا۔ دنیا بھر کی جنگی مشین کو خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے اتار کر انہیں شہ سرخیوں میں جگہ دلوائی گئی۔ امریکہ سے تادیر چھپ کر اسامہ بن لادن نے ’قبیلے‘ میں اپنا قد کاٹھ بڑھایا۔

اس پر مستزاد یہ کہ رواں برس اگست میں افغانستان سے ہونے والا بے آبرو مندانہ انخلا نے طالبان سمیت ایسے گروپوں کو فتح کے بلند بانگ دعوے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ افغانوں نے 20 برس تک امریکہ کا ’دیرپا آزادی آپریشن‘ بھگتا، لیکن حقیقی آزادی کے مظاہر انہیں خال خال دیکھنا نصیب ہوئے۔

امریکا سات سمندر پار سے اپنے اتحادی لشکر کے ہمراہ جس سوچ اور فکر کا قلع قمع کرنے افغانستان کی سنگلاخ چٹانوں پر اترا، آج عین 20 برس بعد وہی سوچ اور فکر سیاسی نظریہ بن کر افغانستان پر حکومت کے لیے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں تاریخ رواں برس کے 9/11 کو یقیناً منحوس برسی کے نام سے یاد کرے گی۔۔۔۔   فاعتبروا یا اولی الابصار

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ