’ظاہر جعفر کے والدین کراچی میں تھے، تو ملزم کیسے بنا دیا گیا؟‘

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مینار پاکستان واقعے میں بارہ پندرہ لوگ ملوث تھے، گرفتار ڈیڑھ سو ہوئے، اسی طرح ظاہر جعفر کے والدین کو گرفتار کیا گیا۔

نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

’اب تو میں یوم آزادی کی خوشیوں میں شریک ہونے بھی نہیں جا سکتا کہ وہاں کچھ ہو گیا تو ویڈیو میں نہ آ جاؤں۔‘ 

یہ کہنا تھا نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل خواجہ حارث کا جو بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ کے سامنے دلائل دے رہے تھے۔ 

ظاہر جعفر کے والدین، ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، نے ضمانت منسوخ ہونے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی سماعت جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے کی۔ 

خواجہ حارث نے کہا کہ ’مینار پاکستان پر ہونے والے افسوس ناک واقعے میں 12 سے 15 لوگ ملوث تھے، جب کہ پولیس نے ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کر لیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والے تمام لوگوں کو پکڑ لیا گیا۔‘

خواجہ حارث کے مطابق ’مینار پاکستان کے واقعے میں بغیر سوچے سمجھے گرفتاریاں کی گئیں اور اسی طرح نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم کے والدین کی بھی گرفتاری کی گئی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ وقوعے کے وقت ان کے موکل (ظاہر جعفر کے والدین) کراچی میں تھے جب کہ قتل اسلام آباد میں ہوا۔  

’نور مقدم کا قتل شام سات بجے ہوا جبکہ پولیس رات دس بجے کا بتا رہی ہے۔‘

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ پولیس کو قتل کی اطلاع کس نے دی؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا: ’پولیس کو کس نے بتایا، وہ کس پر موقع پر گئے، یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔‘ 

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ’عدالت دیکھے کہ ایف آئی آر کے مطابق الزام کیا ہے، کیونکہ 20 جولائی کی رات ساڑھے 11 بجے ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور وقوعے کا وقت دس بجے بتایا گیا ہے۔‘ 

انہوں نے کمرہ عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی ایف آئی آر پڑھ کر سنائی، جس میں ان کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

’ظاہر جعفر اسلام آباد میں اور ان کے والدین کراچی میں تھے، تو سوال اٹھتا ہے کہ انہیں ملزم کیسے بنا دیا گیا؟‘   

خواجہ حارث کے مطابق ’مرکزی ملزم کے والدین اسلام آباد آ کر شامل تفتیش ہوئے، اور انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی اور انہیں ضمانتی مچلکے داخل نہ ہونے کے باعث 24 جولائی کو گرفتار کر لیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دونوں موکلوں کو 27 جولائی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایا گیا اور انہوں نے 29 جولائی کو ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی جو پانچ اگست کو خارج ہوئی۔  

خواجہ حارث نے کہا کہ ’پولیس کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے 24 جولائی کو بیان ریکارڈ کرایا جس میں کچھ حقائق بیان کیے اور اسی روز مقتولہ نور مقدم کا موبائل فون ریکور ہونے کا بتایا گیا۔‘

’مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے 20 جولائی کی شام اپنے والد ذاکر جعفر کو دو کالز کیں جن کی بنیاد پر انہیں (ذاکر جعفر کو) ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا۔‘  

انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آر میں ابتدائی طور پر قتل کی دفعہ لگائی گئی ہے، جب کہ ان کے دونوں موکلوں کے خلاف شہادتیں چھپانے، جرم میں سہولت کاری اور اعانت جرم کی دفعات کا بعد میں اضافہ کیا گیا۔‘

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کے دوران تفتیش انکشافات کی روشنی میں نور مقدم کے والد اور اس درخواست میں مدعی شوکت مقدم نے ضمنی بیان ریکارڈ کرایا۔  

ملزم ظاہر جعفر کے بیان کے مطابق: ’نور مقدم نے شادی سے انکار کیا تھا، اور میں اس کو ختم کر کے جان چھڑا رہا ہوں، چوکیدار کو کہا کہ کسی کو گھر میں نہ آنے دینا کیونکہ میں نے نور مقدم کا کام تمام کرنا ہے۔‘  

ظاہر جعفر نے بیان میں مزید کہا کہ اس نے اپنے والد ذاکر جعفر کو قتل کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

اس موقع پر جسٹس عار فاروق نے کہا کہ برطانیہ میں پریکٹس ہے کہ دوران تفتیش بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ ’یہ بات بھی پتہ چل جاتی ہے کہ سوالوں کے جواب دیتے وقت بیان دینے والے کے کیا تاثرات تھے۔‘  

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں بیان کسی اور زبان میں ریکارڈ ہوتا ہے اور بعد میں اس کا ٹرانسکرپٹ انگریزی میں تیار کیا جاتا ہے۔‘ 

خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ سماعت اگلے روز تک ملتوی کر دی گئی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان