کیویز کے خلاف سیریز سے نئے چیئرمین پی سی بی کا استقبال؟

اگر بورڈ اس سیریز میں ڈی آر ایس کی سہولت کو سمجھوتے کا حصہ بناتا تو براڈ کاسٹر بھی حتمی طور پر انتظام کرتا لیکن شاید بورڈ کے متعلق حکام نے اس امر سے آخری وقت تک چشم پوشی کی اور ماڈرن کرکٹ کے ایک اہم جزو کو نظر انداز کیا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم 14 ستمبر کو راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کے خلاف کرکٹ سیریز کی تیاریوں کے سلسلے میں پریکٹس کر رہی ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک روزہ کرکٹ میچز کی سیریز کا آغاز جمعے سے ہورہا ہے۔ اس سیریز میں تین میچز کھیلے جائیں گے اور ان تینوں میچز کے لیے راولپنڈی کرکٹ گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم 18 سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستان کا دورہ کر رہی ہے۔ اس کا آخری دورہ کراچی کے المناک سانحہ پر وقت سے پہلے ختم ہوگیا تھا جس کے بعد تمام تر کوششوں کے باوجود کیویز ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے پر راضی نہیں ہوئے تھے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم

طویل وقفے کے بعد بھی نیوزی لینڈ کے مستند اور اہم کھلاڑی اس دورے پر غیر حاضر ہیں۔ کین ولیمسن، کائل جیمیسن، ٹم ساؤتھی اوربولٹ جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی آئی پی ایل میں مصروف ہیں۔

ٹام لیتھم ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ ٹیم وہی ہے جو گذشتہ دنوں بنگلہ دیش کے دورہ پر تھی اور اسے 2-3 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وہی ٹیم پاکستان کے دورہ پر ہے جس نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کھیلی ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ ان کے وکٹ کیپر بلے باز ٹام بلنڈل  زخمی ہوکر سیریز سے باہر ہوگئے ہیں۔

ان کی جگہ ڈیرل مچل کو شامل کرلیا گیا ہے۔ مچل ایک اچھے آل راؤنڈر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کپتان لیتھم وکٹ کیپنگ کریں گے۔

فن ایلن اور نئے بلے باز رچن رویندرا اوپننگ کریں گے۔ ٹام لیتھم، ولی ینگ اور ہنری نکولس مڈل آرڈر سنبھالیں گے۔

کیویز کی بولنگ اتنی خطرناک نہیں ہوگی کیونکہ ہمیش بینیٹ اور ڈگ بریسویل دوسرے درجے کے بولرز ہیں اور تجربہ بھی کم ہے۔

کولنگرانڈہوم سب سے تجربہ کار بولر ہیں سپن میں اگر جگہ بنی تو اعجازپاٹل کھیل سکتے ہیں۔ ڈیرل مچل بھی کھیلیں گے کیونکہ وہ ایک اچھے آل راؤنڈر ہیں۔

مجموعی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کمزور اور ناتجربہ کار ہے جس کے لیے پاکستان مضبوط حریف ثابت ہوگا۔

پاکستان کی ٹیم

پاکستان کی ٹیم مینیجمنٹ نے دو روز قبل ہی ٹیم کا اعلان کیا ہے۔ فخر زمان اور امام الحق اوپننگ کریں گے جبکہ بابر اعظم محمد رضوان، سعود شکیل اور شاداب خان مڈل آرڈر بیٹنگ کا شعبہ سنبھالیں گے۔

اگر پاکستان نے زاہد محمود کو ڈراپ کیا تو افتخار احمد بھی مڈل آرڈر میں ہوں گے ورنہ پاکستان دو سپنرز زاہد محمود اور عثمان قادر کے ساتھ کھیلے گا۔

فاسٹ بولنگ کی ذمہ داری شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور حارث رؤف کے سر ہوگی۔

پاکستانی ٹیم ہر لحاظ سے مضبوط اور توانا نظر آتی ہے۔ اپنی پوری قوت کے ساتھ سیریز میں جانے کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنی رینکنگ بہتر بنانے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔

اس سیریز میں بلے بازوں کے پاس بھرپور موقعہ ہوگا کہ بڑی اننگز کھیل کراپنی جگہ مستقل کرلیں۔

کیوی بولنگ اس قدر کمزور ہے کہ شاید وہ 300 سے زیادہ سکور کو بننے سے نہ روک سکیں اور بلے باز اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان کے بولنگ اٹیک کا مقابلہ کرسکیں۔

ڈی آر ایس کے بغیر سیریز

موجودہ سیریز میں ڈی آر ایس کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی جس کی وجہ سے آئی سی سی کی ورلڈکپ سپر لیگ کا حصہ نہیں ہوگی۔ آئی سی سی نے آئندہ ورلڈکپ کے لیے کوالی فائنگ راؤنڈ کو سپر لیگ کا نام دیا ہے اس کا مطلب ہے کہ موجودہ سیریز کا نتیجہ لیگ پر اثر انداز نہیں ہوگا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے وضاحت کی ہے کہ براڈ کاسٹر کے پاس ڈی آر ایس کی سہولت موجود نہیں ہے اور مختصر وقت میں براڈ کاسٹر تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے نئے چیئرمین رمیز راجہ نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور باز پرس کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اگر بورڈ اس سیریز میں ڈی آر ایس کی سہولت کو سمجھوتے کا حصہ بناتا تو براڈ کاسٹر بھی حتمی طور پر انتظام کرتا لیکن شاید بورڈ کے متعلق حکام نے اس امر سے آخری وقت تک چشم پوشی کی اور ماڈرن کرکٹ کے ایک اہم جزو کو نظر انداز کیا ہے۔

پاکستان ٹیم کے لیے یہ سیریز ایک آسان سیریز ہے لیکن اگر تمام اہم کھلاڑیوں کی موجودگی میں نتیجہ توقعات کے برعکس ہوا تو اسکا اثر ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں پر پڑ سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ