شمالی وزیرستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر ہلاک: سکیورٹی فورسز

آئی ایس پی آر کے مطابق تحصیل میر علی میں سکیورٹی فورسز نے کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر سیف اللہ کو ہلاک کیا جو ایک غیرسرکاری تنظیم کی چار خواتین ملازمین اور ایف ڈبلیو او کے انجینیئرز کی ہلاکت میں ملوث تھے۔

مبصرین کے مطابق پاکستانی طالبان نے افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع بشمول شمالی اور جنوبی وزیرستان، مہمند اور باجوڑ میں خاموشی سے واپسی کی ہے (اے ایف پی فائل)

پاکستان سکیورٹی فورسز نے کہا ہے کہ انہوں نے سوموار کی صبح شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک کمانڈر سیف اللہ کو ہلاک کر دیا اور  بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لیا۔

پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق ہلاک کمانڈر سیف اللہ فروری 2021 میں ایک غیرسرکاری تنظیم کی چار خواتین ملازمین اور نومبر 2020 میں فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے انجینیئرز کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے جیسے واقعات میں ملوث تھے۔ 

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہلاک کمانڈر سکیورٹی فورسز پر خودساختہ بموں یعنی آئی ای ڈیز کی منصوبہ بندی اور حملوں کے علاوہ بھتہ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی ملوث تھے۔

اس واقعے پر فی الحال تحریک طالبان کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ تنظیم کے اندر وہ کتنے اہم تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عسکری تنظیموں کے امور کے ماہرین گذشتہ چند دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی سرحدی قبائلی اضلاع میں بظاہر متحرک ہوئی ہے۔ اسی قسم کی ایک جھڑپ میں سات پاکستانی فوجی اور پانچ شدت پسند مارے گئے تھے۔

اس سال جولائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں ہزاروں پاکستانی جنگجوؤں کی موجودگی اور پاکستان کے اندر حملے کرنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جسے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’افغانستان میں پاکستانی جنگجوؤں کی کل تعداد چھ سے ساڑھے چھ ہزار ہے، جو دونوں ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستانی طالبان نے افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع بشمول شمالی اور جنوبی وزیرستان، مہمند اور باجوڑ میں خاموشی سے واپسی کی ہے۔

وزیرستان کے مقامی لوگ اور صحافی ان اضلاع میں ٹارگٹ کلنگ کی تعداد میں اضافے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال 2007 اور 2008 کے دور کی یاد دلاتی ہے جب ٹی ٹی پی نے سوات، باجوڑ، مہمند، خیبر اور وزیرستان کے اضلاع میں کارروائیاں تیز کی تھیں جن کے نتیجے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو ان علاقوں میں آپریشن شروع کرنا پڑا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان