جب مولانا مودودی کی مسلمانوں کو بچانے کی تجاویز نظرانداز کر دی گئیں

حیدرآباد دکن پر بھارتی حملے کے بعد مسلمانوں پہ کیا گزری اس کا اندازہ بھارتی حکومت کے سابق افسر انجینیئر ایم اے عزیز کی کتاب ’پولیس ایکشن‘ کے انتساب سے لگایا جا سکتا ہے۔

اسلام کے عظیم مفکر اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے حیدرآباد دکن پر بھارتی فوج کے حملے کے قریب نو ماہ قبل اپنے ایک خط میں مسلمانان حیدرآباد کی تباہی کا خدشہ ظاہر کیا تھا (وکی میڈیا)

11 ستمبر 1948 کو محمد علی جناح کا انتقال ہوا تو حیدرآباد دکن پر فوج کشی کے لیے بھارت کو ایک بڑا موقع ہاتھ آیا جس کا اعتراف جنرل جینتو ناتھ چوہدری (حیدرآباد پر حملے کرنے والی بھارتی فوج کے سپہ سالار) نے تحریراً کیا ہے۔

13 ستمبر 1948 کی علی الصبح بھارتی فوج کئی اطراف سے حیدرآباد دکن میں داخل ہوئی۔ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوجیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر قاسم رضوی کے غیر تربیت یافتہ رضاکار سامنے آئے مگر تہ تیغ ہوئے۔

بھارتی فوج کے حیدرآباد دکن میں داخلے کے پانچویں روز یعنی 17 ستمبر 1948 کو بیگم پیٹ ہوائی اڈے پر نظام میر عثمان علی خان کی فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور یوں حیدرآباد کے آزاد رہنے کی ہر خواہش دم توڑ گئی۔

13 ستمبر کو بھارتی فوج کے حیدرآباد دکن میں داخلے کے بعد جہاں ہزاروں رضاکار گولیوں کا نشانہ بنے وہیں ’جے ہند‘ کا نعرہ لگوانے کے نام پر بڑے پیمانے پر مسلمان قتل کر دیے گئے، مسلم خواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں اور رہائشی مکانات لوٹنے کے بعد نذر آتش کر دیے گئے۔

حیدرآباد دکن پر بھارتی حملے کے بعد مسلمانوں پہ کیا گزری اس کا اندازہ بھارتی حکومت کے سابق افسر انجینیئر ایم اے عزیز کی کتاب ’پولیس ایکشن‘ کے انتساب سے لگایا جا سکتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’ان معصوم مسلم خواتین کے نام جو پولیس ایکشن کے بعد ہونے والے ’جے ہند‘ کے ظلم کا شکار ہوئیں اور ان کے زخموں پر کسی نے مرہم نہیں رکھا۔ جن کی عزتیں صرف اس لیے لوٹی گئیں کہ وہ مسلمان تھیں۔ کئی اپنی عزت و ناموس کے لیے کنویں میں کود گئیں۔‘

’سینکڑوں مسلم خواتین اپنے مذہب، تہذیب و تمدن، عزیز و اقربا کی محبت کا کرب لیے زور زبردستی سے ہندو خاندانوں کا حصہ بنا دی گئیں اور اُن بیواؤں کے نام جن کے شوہر پولیس ایکشن میں شہید ہوئے اور آج بھی وہ غمناک زندگی گزار رہی ہیں۔‘

انجینیئر ایم اے عزیز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: '13 ستمبر 1948 کے بعد حیدرآباد کے مضافات میں مسلمانوں پر ظلم کی لہر کے دوران مسلم تنظیموں کے مطابق کوئی پانچ لاکھ افراد ’جے ہند‘ کی نذر ہوئے لیکن کامریڈ افتخار احمد رضوی کے مطابق تین لاکھ مسلمانوں کو بھارتی فوج کی مدد سے ہندوؤں نے قتل کیا۔

’بھارتی حکومت کی ایما پر پنڈت سندر لال کی صدارت میں قائم شدہ تحقیقاتی کمیشن نے اس مسلم نسل کشی کی جو رپورٹ تیار کی کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی کوئی 50 ہزار سے دو لاکھ مسلمانوں کے مارے جانے کا ذکر ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل چراغ پا ہوئے اور ان کے حکم پر اسے دبا دیا گیا۔‘

اسلام کے عظیم مفکر اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے حیدرآباد دکن پر بھارتی فوج کے حملے کے قریب نو ماہ قبل اپنے ایک خط میں مسلمانان حیدرآباد کی تباہی کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور حیدرآبادی قائدین بالخصوص قاسم رضوی کو اس ممکنہ تباہی سے بچنے کی کچھ تجاویز دی تھیں جن کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔

مولانا مودودی نے اپنے خط، جس پر تاریخ 25 دسمبر 1947 درج ہے، کی تمہید میں اپنی حیدرآباد دکن سے وابستگی پر لکھا تھا: ’حیدرآباد کے مسلمانوں سے دینی اخوت کی بنا پر میرا جو تعلق ہے اگرچہ اس کا بھی تقاضہ ہے کہ میں اس نازک موقعے پر ان کو ایک خیرخواہانہ مشورہ دوں، لیکن اس کے علاوہ حیدرآباد سے اس بنا پر میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے کہ اورنگ آباد (یہ شہر سنہ 1960 تک حیدرآباد کا حصہ تھا) میرا پیدائشی وطن ہے اور میری زندگی کا نصف سے زائد حصہ حیدرآباد ہی میں بسر ہوا ہے۔

’اس دوہرے قلبی تعلق کی وجہ سے میں اس تمام تشویش اور فکرمندی میں بعد مقام کے باوجود حیدرآباد کے مسلمانوں کے ساتھ برابر کا شریک ہوں جس میں وہ موجودہ سیاسی صورت حال کی وجہ سے اپنے آپ کو مبتلا پا رہے ہیں۔ یہی چیز مجھ کو مجبور کرتی ہے کہ میں بلا طلب اپنا مشورہ ان حضرات کی خدمت میں پیش کروں جو اس وقت مسلمانان حیدرآباد کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری ان گزارشات پر وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور سرسری طور پر انہیں نظرانداز نہیں کریں گے۔‘

مولانا مودودی کی تجاویز کیوں نظرانداز کر دی گئیں؟

حیدرآباد دکن میں جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا حامد محمد خان کا کہنا ہے کہ قاسم رضوی کی قیادت والی جذباتی مسلم قیادت وجہ بنی کہ مولانا مودودی کے ’مفید مشوروں یا تجاویز‘ پر عمل نہیں ہوا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اُس زمانے میں مولانا محمد یونس حیدرآباد دکن میں جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ انہوں نے مولانا مودودی کا خط قاسم رضوی کے سپرد کیا۔ لیکن بدقسمتی سے قاسم رضوی نے تجاویز پر غور کیا نہ نظام میر عثمان علی خان کے گوش گزارر کرنا ضروری سمجھا۔ میں نے سنا ہے کہ یہ خط یہاں کے محکمہ آرکائیوز میں آج بھی موجود ہے۔

’قاسم رضوی انتہائی جذبانی آدمی تھے۔ ان کے جیسے جذباتی لوگوں نے نظام کو پوری طرح سے یرغمال بنایا تھا۔ وہ (نظام) اپنی ذات کے شہ پر کوئی بھی فیصلے نہیں کر پاتے تھے۔ وہ بے بس ہو چکے تھے۔ ستمبر 1948 کو مسلمانان حیدرآباد کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس پر مولانا مودودی کو بڑا دکھ ہوا تھا۔‘

مولانا حامد محمد خان کہتے ہیں کہ ’حیدرآبادی قائدین کے نام خط‘ سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا مودودی کس قدر دور اندیش تھے اور انہیں حیدرآبادی مسلمانوں کی کتنی فکر لاحق تھی۔

’مودودی صاحب نے ’دکن کی سیاسی تاریخ‘ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔ اُن کا واضح موقف تھا کہ نظام ایک ایسی ریاست پر حکومت کر رہے ہیں جس کی 85 فیصد آبادی ہندوؤں اور محض 15 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپ ہر ایک طبقے کے دل جیتنے کا کام نہیں کریں گے تو آپ زیادہ وقت تک اپنی حکومت کو جاری نہیں رکھ پائیں گے۔‘

حیدرآباد دکن میں سماجی، فلاحی اور تعلیمی خدمات انجام دینے والی معروف تنظیم ’مجلس تعمیر ملت‘ کے صدر محمد ضیا الدین نئیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اُس زمانے میں مولانا مودودی کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں تھی اور ہو سکتا ہے یہ ایک وجہ رہی ہو کہ اُن کی تجاویز نظرانداز کر دی گئیں۔

’مودودی صاحب اپنا ہر ایک کام کافی سوچ سمجھ اور غور و فکر کے بعد ہی کرتے تھے۔ لہٰذا ان کا حیدرآبادی قیادت کو خط لکھنا بھی ان کے اسی طریقہ کار کا حصہ تھا۔ لیکن چوں کہ وہ اُس زمانے میں زیادہ مقبول نہیں تھے شاید یہی وجہ رہی کہ اُن کے خط کو ہلکے میں لیا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اُس وقت کے مسلمان بہت زیادہ جذبات میں آچکے تھے۔‘

تجاویز کیا تھیں؟

’سقوط حیدرآباد‘ کے مرتبین ڈاکٹر عمر خالدی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کا ’حیدرآبادی قائدین کے نام خط‘ پہلی بار سنہ 1982 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والی کتاب ’یادوں کے خطوط‘ میں شائع ہوا۔

یہ کتاب (یادوں کے خطوط) مولانا مودودی کے اُن خطوط پر مشتمل ہے جو انہوں نے مختلف حیدرآبادی احباب بالخصوص مولانا محمد یونس کو لکھے تھے۔

اپنے خط میں مولانا مودودی نے سنہ 1947 میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا: ’یہ جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں کو پیش آیا ہے میں چاہتا ہوں کہ حیدرآباد کے مسلمان اس سے سبق لیں اور جو تھوڑی سی مہلت ان کو سنبھلنے کے لیے ملی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔

’انڈین یونین کی ہندو اکثریت جو سابق انگریزی طاقت کی وارث ہوئی ہے حیدرآباد کے چاروں طرف محیط ہے۔ حیدرآباد اس کے محاصرہ میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ کسی طرف سے وہ مدد نہیں پا سکتا۔ ریاست کی 85 فیصدی آبادی غیر مسلم ہے اور وہ مسلمان ریاست کے اقتدار کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ جمہوریت کے دور میں 15 فیصدی مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ حکمرانی ان کے ہاتھ میں رہے یا وہ کم از کم آدھے اقتدار کے شریک ہوں کسی طرح نہیں چل سکتا۔
 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس صورت حال میں اگر مسلمان اپنے اقتدار کو اور ان تمام امتیازی حقوق اور اختیارات اور فوائد و منافع کو برقرار رکھنا چاہیں جو انہیں اب تک حاصل رہے ہیں تو اس کے لیے انہیں لڑنا پڑے گا۔ لڑائی محض ریاست کی غیر مسلم اکثریت سے نہیں ہو گی بلکہ آخرکار انڈین یونین کی فوجی طاقت سے ہو گی جس کی پشت پر پورے ہندوستان کی ہندو قوم کی متفقہ طاقت ہو گی مجھے امید نہیں کہ اس لڑائی میں ریاست کی طاقت حیدرآبادی مسلمانوں کا ساتھ دے۔ رئیس کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مفاد اور اپنے خانوادہ کے مفاد کو دیکھتا ہے۔

’اگر وہ محسوس کرے گا کہ مسلمانوں کا ساتھ دینے سے اس کو بھی نواب جوناگڑھ کا سا انجام دیکھنا پڑے گا تو بعید نہیں کہ وہ انڈین یونین کے ساتھ اپنا معاملہ طے کر لے اور اپنی قوم کو اس کی قسمت پر چھوڑ دے۔ حیدرآباد کی فوج، پولیس، عدالتوں اور ایڈمنسٹریشن پر بھی آپ یہ بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ اس لڑائی میں کچھ بہت زیادہ آپ کے کام آ سکیں گے۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی خالص مسلمان عناصر پر مشتمل نہیں ہے بلکہ سب میں اچھا خاصہ غیر مسلم عنصر موجود ہے۔

’لہٰذا اگر خدانخواستہ لڑائی پیش آ گئی تو شاید حیدرآباد کے مسلمانوں کا انجام اس سے بھی زیادہ دردناک ہو گا جو مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا ہوا ہے۔ کیوں کہ یہاں کم از کم اتنا فائدہ تو تھا کہ پاکستان کی سرحدیں قریب تھیں۔ اور پاکستان کی فوج ان کو نکال کر لانے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن اگر خدانخواستہ حیدرآباد کے مسلمانوں پر ایک طرف خود گھر کی اکثریت اور دوسری طرف گرد و نواح کے علاقوں کے مسلح ہندو جتھے اور تیسری طرف انڈین یونین کی فوجیں ٹوٹ پڑیں اور خود ریاست کے نظم و نسق نے ان کا ساتھ نہ دیا تو ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی۔ نہ کہیں سے وہ مدد پا سکیں گے اور نہ کہیں جا سکیں گے۔‘

مولانا مودودی نے حیدرآباد کی مسلم قیادت کو بھارت سے ٹکر لینے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دیتے ہوئے لکھا تھا: ’ہندوستان اور حیدرآباد کی سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کسی طرح ممکن نظر نہیں آتا کہ آپ انڈین یونین میں حیدرآباد کے داخلہ کو اور حیدرآباد میں ذمہ دارانہ حکومت کے قیام کو روک سکیں۔

’یہ چیز بہرحال ہو کر رہے گی۔ آپ کے روکے نہ رک سکے گی اور روکنے کی کوشش کا حال اس کے سوائے کچھ نہ ہو گا کہ ریاست اور مسلمان دونوں تباہ ہو جائیں یا صرف مسلمان تباہ ہوں۔ اور ریاست مسلمانوں کی بھینٹ چڑھا کر اپنے آپ کو بچا لے۔ اس صورت حال میں عقلمندی یہ ہے کہ مزاحمت کرنے کے بجائے آپ ایسی بنیادوں پر مفاہمت کرنے کی کوشش کریں جن سے انڈین یونین کی شرکت اور ذمہ دار حکومت کا قیام نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے کم سے کم مضر ہو سکے بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے مواقع حاصل ہو جائیں جن سے وہ اپنی تعمیر زیادہ اچھی طرح کر سکیں۔

’مزاحمت اور کشمکش کرنے کے بجائے اگر اس وقت حیدرآبادی مسلمانوں کی قومی تنظیم یعنی انجمن اتحاد المسلمین یہ بات پیش کر کے وہ چند شرائط کے ساتھ انڈین یونین کے داخلہ اور مکمل ذمہ دار حکومت کے قیام پر بخوشی راضی ہے تو مجھے امید ہے کہ اس مرحلہ پر سٹیٹ کانگریس اور انڈین یونین ہماری شرائط ماننے پر راضی ہو سکیں گی۔‘

 

حیدرآبادی مسلمانوں کی حالت پر مولانا مودودی کا نوحہ

حیدرآباد دکن پر بھارتی فوج کے حملے اور اس کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں پر مولانا مودودی نے اپنے رسالے 'ترجمان القرآن' کے پانچویں اور دسمبر کے شمارے میں لکھا کہ بدقسمتی سے حیدرآبادی مسلمانوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو انہیں ’اندھے جوش‘ اور ’کھوکھلے نعروں‘ سے لبھاتے رہے۔

بظاہر اپنی پیش کردہ تجاویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ جن لوگوں نے مزاحمت اور جنگ کے بجائے تباہی سے بچنے کی راہ سوچی اور بتائی وہ حیدرآبادی مسلمانوں کو اپنے دشمن نظر آئے۔

’تقسیم ہند کے وقت تک ریاست پر انگریزوں کی بالادستی مسلط رہی تھی اور اس نے دوسری ریاستوں کی طرح حیدرآباد کو بھی ایسا کوئی موقع نہ دیا تھا کہ وہ اپنی فوجی طاقت مضبوط کر سکے۔ اور تقسیم کے بعد حیدرآباد انڈین یونین کے گھیرے میں آ چکا تھا اس لیے نہ باہر سے کوئی بڑی مدد اس کو پہنچ سکتی تھی اور نہ اندر ہی اس کا کوئی امکان تھا کہ چند مہینوں میں وہ اتنی جنگی طاقت فراہم کر سکے جو ہندوستان سے لڑنے کے لیے کسی حد تک کافی ہو۔ اخلاقی حیثیت سے بھی حیدرآباد کے مسلمان کچھ ایسے برتر نہ تھے کہ کوئی شخص یہ تصور کر سکتا کہ وہ اپنے سے 70 گنی طاقت کا مقابلہ کر سکیں گے۔

’یہ تھے حیدرآباد کے اصل حالات۔ ان حالات میں کوئی ہوش مند انسان یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ وہاں 85 فیصدی غیر مسلم اکثریت پر 15 فیصد مسلم اقلیت کا وہ غلبہ و اقتدار برقرار رکھا جا سکتا ہے جو پہلے بالکل مختلف حالات میں قائم ہوا اور رہا تھا اور کسی مرد عاقل سے یہ بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی تھی کہ حیدرآباد انڈین یونین سے لڑ کر اپنی خود مختاری قائم نہیں رکھ سکتا۔

’دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان کشمکش، مزاحمت اور جنگ کے بجائے اپنے مستقبل کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کرتے جس میں وہ کامل تباہی سے بچ بھی سکتے اور آئندہ اپنی اخلاقی و دینی حالت کو بہتر بنا کر کوئی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے کے مواقع بھی انہیں حاصل رہتے لیکن جن لوگوں نے ایسی کوئی راہ سوچی اور بتائی وہ مسلمانوں کو دشمن نظر آئے۔

’انہوں نے اپنی رہنمائی کے لئے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو اندھے جوش، کھوکھلے نعروں، جھوٹی توقعات غلط امیدوں، بے بنیاد آرزوؤں اور بے زور لاف و گزاف کے ذریعہ سے ان کے غرور و نفس کو فی الوقت تسکین دے سکیں۔ وہ اس آواز پر مر مٹے کہ کوئی دلی کے لال قلعہ پر آصف جاہی جھنڈا گاڑ دینے کی بات تو کرتا ہے۔ (لال قلعے پر آصف جاہی جھنڈا گاڑنے کی بات قاسم رضوی نے کہی تھی)۔

’اس نشے میں چالیس لاکھ کی پوری آبادی مست ہو گئی۔ کوئی یہ سوچ کر اپنے وقتی لطف کو کرکرا کرنے پر راضی نہ ہوا کہ آخر یہ کام ہو گا کس طرح، سب کے سب آنکھیں بند کر کے اس لاف زنی کے پیچھے چل پڑے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی انہیں ایسے بے نظیر لیڈر میسر آتے ہی چلے جاتے ہیں!

’یہ تو تھی حیدرآباد کے مسلمانوں کی کیفیت۔ رہے پاکستان کے مسلمان تو ان کی کیفیت بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھی۔ سیاسی تقسیمات نے چاہے ہم کو کتنا ہی بانٹ دیا ہو مگر قوم اور اس کا مزاج تو ایک ہی ہے۔ یہاں ہمارے اخبارات وہ ساری نشہ آور تقریریں پھیلا رہے تھے جس سے حیدرآباد کے لوگوں پر مستی کا عالم طاری کیا جا رہا تھا۔ حیدرآباد کی روز افزوں طاقت اور اس کی زبردست تیاریوں کے متعلق طرح طرح کے افسانے نہ معلوم کہاں تصنیف ہوتے تھے اور عام لوگوں تک پہنچا دیے جاتے تھے۔

’کبھی ہمیں سنایا جاتا تھا کہ حیدرآباد کے پاس بڑا بھاری ہوائی بیڑا موجود ہے کبھی کہا جاتا تھا کہ اس نے گوا کی بندرگاہ حاصل کر لی ہے کبھی خبر دی جاتی تھی کہ اس نے فرانس سے ایک جزیرہ حاصل کر لیا ہے ۔ کبھی اس کی فوجی طاقت اور جنگی سروسامان کے متعلق سراسر بے سروپا اندازے شائع کیے جاتے تھے۔ کبھی بتایا جاتا تھا کہ دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں اس کی مدد کے لیے تیاریاں ہورہی ہیں۔ ان باتوں سے محض عوام الناس ہی نہیں ہمارے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ اور ذمہ دار منصب رکھنے والے اصحاب تک جھوٹی امیدوں اور غلط توقعات کے قلعے بنا کر بیٹھ گئے تھے۔

’حتی کہ جس روز شام کو حیدرآباد ہتھیار ڈالنے والا تھا اس کی دوپہر تک ہمارے خطیب اپنے جمعہ کے خطبوں میں اپنی قوم کو یقین دلائے جا رہے تھے کہ عنقریب لڑائی کا نقشہ بدلنے والا ہے اور اس کے بعد بس دیکھنا کہ کیا ہو گا۔ پھر جب تلخ حقائق کی ایک ضرب نے وہ تمام خیالی قلعے یک خلت منہدم کر دیے جو ہوا باندھ کر پچھلے ایک سال سے تعمیر ہو رہے تھے۔ تو اس کا نفسیاتی اثر جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔

’آج حیدرآباد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے تصور سے ہر مسلمان کا دل غمگین ہے۔ جہاں سات تا آٹھ سو برسوں تک مسلسل مسلمانوں کا غلبہ رہا آج وہاں مسلمان صرف مغلوب ہی نہیں پامال بھی ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کی وسیع سرزمین میں وہ ایک خطہ بھی اب باقی نہیں رہا جہاں مسلمان عزت سے سر اٹھا کر چل سکتا تھا۔ کل تک جس حیدرآباد کی طرف سارے ہندوستان کے مسلمان امید بھری نگا ہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ افسوس آج وہی حیدرآباد ہر طرف مایوسی ہی مایوسی دیکھ رہا ہے۔

’اپنے بھائیوں کے اس انجام پر ہمارا غم و افسوس صحیح مگر انڈین یونین کی بد عہدیوں اور کم ظرفیوں اور خود مستیوں پر ہمارا غصہ بجا۔ برطانوی حکومت کے غدارانہ رویہ پر ہماری شکایت درست اور نظام کی خود غرضی پر بھی ہمارا غیظ و غضب برحق مگر ہم کبھی اس طرح کی ٹھوکریں کھانے اور چوٹیں سہنے سے نہیں بچ سکیں گے جب تک کہ خود اپنی ان غلطیوں کو محسوس نہ کریں جن کی بدولت یہ پے درپے زکیں ہمیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا